ہمارے فلم ساز جھوٹ بولتے ہیں، باکس آفس کو بڑھا چڑھا کربیان کیا جاتا ہے: خرم سہیل
”ہمارے فلم سازوں کی اکثریت اسکرپٹ اور موضوعات کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے، باکس آفس کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ زمینی حقائق مدنظر رکھے بغیر پاکستانی انڈسٹری میں بہتری کے امکانات نہیں!“
یہ خیالات ہیں متعدد کتابوں کے مصنف، اینکر، بلاگر، انٹرویو نگار اورفلمی مبصر خرم سہیل کے، جو آج کل ایک میگا پراجیکٹ کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں اس باصلاحیت قلم کار سے ایک مختصر مکالمہ ہوا، جس کا بنیادی محور کورونا بحران اور فلم انڈسٹری تھا، آئیں آپ بھی اس میں شامل ہوجائیں۔
ہم نے ان سے پوچھا، آپ کے خیال میں کورونا کے بعد عالمی فلمی صنعت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے گی؟
کہنے لگے: دنیا میں کہیں بھی، کسی بھی نوعیت کی فلمی صنعت ہو، اس کا تعلق اپنے ملکی نظام اور حکومتی انتظام و انصرام سے ہوتا ہے، اس لیے خاص طور پر مغربی دنیا میں سینما کی بحالی کو وقتی طور پر تو کچھ مشکلات درپیش آسکتی ہیں، لیکن وہ جلدی اپنے قدموں پر کھڑا ہوجائے گا، کیونکہ وہاں کی حکومتوں کے لیے سینما ایک اہم صنعت ہے، کیونکہ وہ اس کے ذریعے تفریح تو مہیا کرتے ہی ہیں، مگر ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی شعور اور رائے شماری کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے کورونا کی وبا کے اثرات ان کے ہاں زیادہ دنوں تک سینما کو متاثر نہیں کرسکتے، پھر مغرب سے”نیٹ فلیکس“اور”ایمازون ویڈیوز“ جیسے پورٹلز نے تفریح کے تصور کو مزید کشادہ کردیا ہے، دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کامیاب کوششوں سے، مغربی سینما کی موجودہ شکل میں البتہ کچھ تبدیلی ضرور آئے گی، جس کے امکانات کورونا کے دنوں میں واضح طور پر محسوس ہوئے ہیں۔
ہم پوچھا کیے، پاکستانی سینما انڈسٹری کی بہتری کے لیے آپ کے پاس کیا مشورہ ہے؟
خرم سہیل نے اس کا تفصیلی جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا، ہمارے ہاں اس وقت تک سینما بہتر نہیں ہوسکتا، جب تک زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات نہیں کیے جائیں گے۔ مثال کے طور پر پاکستانی فلم سازوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ترک کرنا پڑے گی۔ یہ باکس آفس کے بزنس کو بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں، جبکہ فلمیں اتنا بزنس نہیں کرتیں، اگر کررہی ہوتیں تو اب تک سینما کی بحالی ہوچکی ہوتی۔یہ بہت طویل بحث ہے، جس پر مزید بات ہوسکتی ہے.
میں ایک بہت بڑے پروجیکٹ پر کام کر رہا ہوں، جس کو قارئین جلد دیکھ اور پڑھ سکیں گے، یہ پروجیکٹ ہے ”دنیا کے پہلے ناول کا اردو زبان میں ترجمہ“ اور یہ جاپانی ناول ہے، جس کو ایک جاپانی خاتون ناول نگار”موراساکی شیکیبو“ نے لکھا ہے۔
پھر فلم سازی میں سب سے اہم چیز اسکرپٹ اور موضوعات ہیں،پاکستانی فلم سازوں کی اکثریت، اس کو نظرانداز کرکے فارمولا ٹائپ فلمیں بنانے میں مصروف رہتی ہے، فارمولافلمیں وہاں بنائی جاتی ہیں، جہاں مختلف نوعیت کی فلمیں بن رہی ہوں، جس طرح بالی ووڈ میں اگر کمرشل سینما کے نام پر فارمولا فلمیں بن رہی ہیں، تو سمجھ آتی ہے، کیونکہ وہاں پیررل سینما کے لیے کم بجٹ کی بھی سینکڑوں فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ پاکستانی فلم سازوں کو سچائی قبول کرتے ہوئے حقیقی محنت کرنا ہوگی، تب یہ انڈسٹری اپنے قدموں پر کھڑی ہوگی۔ بیس سال سے نعرہ لگایا جا رہا ہے سینما کی بحالی کا، مگر ابھی تک اس بحالی کے نشانات کہیں دکھائی نہیں دیے۔ حکومت کو بھی چاہیے، ٹیکس کی چھوٹ، سینسر کی نرم پالیسی اور معاشی سہولتوں کے پہلو سے فلم سازوں کو رعایت دے، تاکہ پاکستانی سینما حقیقی معنوں میں بحال ہوسکے۔
بنیادی طور پر تو وہ مصنف ہیں، کئی کتابی شایع ہو چکی ہیں، جو زیر بحث آئیں، اسی تناظر میں پوچھا، آج کل کس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں؟
انھوں نے کہا، آپ جیسا کہ جانتے ہیں، میں روزنامہ جنگ کے لیے سلسلہ وار کالم لکھتا ہوں، جس کا موضوع دنیا بھر کے ناولوں پر بننے والی فلمیں ہیں، پھر ڈان اردو، آن لائن ایڈیشن کے لیے فنون لطیفہ سے متعلق بلاگز بھی لکھتا ہوں اور جی ٹی وی سے ایک کلچرل ٹاک شو کرتاہوں، یہ تووہ معاملات ہیں، جو روزانہ کی بنیاد پر ہیں، البتہ میں ایک بہت بڑے پروجیکٹ پر کام کر رہا ہوں، جس کو قارئین جلد دیکھ اور پڑھ سکیں گے، یہ پروجیکٹ ہے ”دنیا کے پہلے ناول کا اردو زبان میں ترجمہ“ اور یہ جاپانی ناول ہے، جس کو ایک جاپانی خاتون ناول نگار”موراساکی شیکیبو“ نے لکھا ہے۔
اردو زبان میں اس ناول کا ترجمہ باقر نقوی نے کیا اور میں اس ترجمے کی تدوین کر رہا ہوں۔ باقرصاحب جوکہ پاکستان کے بہت بڑے مترجم گزرے ہیں، انہوں نے میری خواہش پر اس ناول کا ترجمہ شروع کیا تھا، پہلا ڈرافٹ مکمل ہوا ہی تھاکہ ان کا انتقال ہوگیا، چونکہ اس میں لسانی و تخلیقی اور تحقیقی حوالوں سے بہت سارا کام باقی تھا، جو پھر مجھے کرنا پڑا ہے۔ میں ایک برس سے اس ترجمہ کی درستی کے لیے عرق ریزی سے کام کر رہا ہوں۔ ایک ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل اس ناول کا نام”گینجی کی کہانی“ ہے، جو ایک جاپانی شہنشاہ اور ملک جاپان کے تناظر میں ہے، میں صرف اس کی درستی ہی نہیں کر رہا، بلکہ اس کے حواشی و حوالے بھی تحریر کر رہا ہوں۔ مجھے خوشی ہے، اب یہ اختتامی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، باقر نقوی صاحب کی ریاضت اور میری معاونت سے، یہ دنیا کا پہلا ناول اردو زبان و ادب کے عاشقوں کو پڑھنے کے لیے جلد ہی دستیاب ہوگا۔ یہ پاکستان جاپان لٹریچر فورم کی طرف سے اردو قارئین کے لیے ایک تحفہ ہوگا، اس کوشش میں جاپانی دوستوں کا تعاون بھی شامل ہے۔