مقبوضہ کشمیر میں غیرشادی شدہ خواتین کی تعداد میں اضافہ، شدید سماجی و نفسیاتی مسائل سے دوچار

فرخند یوسف زئی
مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر شادی شدہ خواتین کی بتدریج بڑھتی ہوئی تعداد کا مسئلہ شدت اختیار کر رہاہے۔ اس وقت وادی میں لگ بھگ 50000خواتین شادی کی عمر تک پہنچ چکی ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر ان کی شادیاں نہیں ہو پارہی ہیں، جن میں 10000سے زائد خواتین کا تعلق صرف ضلع سری نگر سے ہے۔
تاخیر سے ہونے والی ان شادیوں کی بڑی وجوہات میں غربت، جہیز کے مطالبات، اعلی تعلیم و بہتر ملازمتوں کی خواہش اور طبقاتی تقسیم شامل ہیں، جبکہ خطے پر قابض بھارتی فورسز کے خلاف جاری تحریک آزادی میں نوجوان لڑکوں کی بڑی تعداد میں شرکت اور شہادتیں بھی اس کی ایک اہم وجہ مانی جاتی ہے۔
غیرقانونی بھارتی قبضے، تشدد اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے دوچار وادی میں اس سنگین سماجی مسئلے کی وجوہات جاننے کے لئے غیر منافع بخش تنظیم تحریک فلاح المسلمین کی جانب سے کئے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق مقبوضہ کشمیر بالخصوص سری نگر میں تاخیر سے ہونے والی شادیوں کی بڑی وجہ مالی وسائل کی کمی اور لڑکوں کے خاندانوں کی جانب سے جہیز کے مطالبات ہیں، جبکہ رشتوں کے لئے امیر خاندانوں کی تلاش اور معاشرے میں اس سلسلے میں مقابلہ بازی کا رجحان بھی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
 
تحریک فلاح المسلمین کے مشترک بانی عبدالرشید نائیک کا کہنا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر لڑکے تعلیم یافتہ اور برسرروزگار خواتین کو ترجیح دیتے ہیں جس سے غیر تعلیم یافتہ خواتین کے لئے مواقع کم ہورہے ہیں۔ نائیک کے مطابق2016میں ان کی تنظیم نے ایسی خواتین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جن کی شادیاں مالی مشکلات کے باعث رکی ہوئی تھیں لیکن اس دوران انھیں معلوم ہوا کہ تاخیرسے شادیاں ہونے کی وجوہات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں،تنظیم کامنصوبہ 100غیرشادی شدہ خواتین کی تلاش کا تھا لیکن سروے کے دوران معلوم ہوا کہ ایسی خواتین کی تعداد ہزاروں میں ہے جن کی مالی وسائل کی کمی یا دیگر نئے سماجی رجحانات کے باعث شادیاں رکی ہوئی ہیں۔
 
محمد صادق مقبوضہ کشمیر کے ضلع سری نگر میں میرج بروکر ہیں۔ انھوں نے فون پر  گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاخیر سے ہونے والی شادیوں کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن میرے خیال میں بڑی وجوہات اعلی تعلیم اور سرکاری ملازمتوں کے حصول کی کوشش ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل کرنے اور پھر ملازمت ڈھونڈنے میں بہت وقت صرف کر لیتے ہیں اورپھر مالی لحاظ سے مستحکم ہونے کے بعد ہی شادی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس وقت وہ تعلیمی اور پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی اپنے لئے ہم پلہ ساتھی چاہتے ہیں اور اس طرح مزید وقت لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شادی کے موقع پر ادا کی جانے والی مختلف مہنگی رسوم اور جہیز کے مطالبات بھی بڑے مسائل ہیں۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی رشتے کے سلسلے میں بات پکی کرنے کے قریب ہوتے ہیں کہ جہیز کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے اور بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ مہنگے جہیز کے مطالبات پچھلے تقریباً دو دہائیوں سے بڑھ گئے ہیں، اس سے پہلے ہمارے علاقے میں یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ معاشرے میں سرکاری ملازمتوں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے جس کے حصول میں اکثر اوقات 35برس کا عرصہ لگ جاتا ہے اور اس عمر میں ملازمت حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوانوں کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ پہلے مالی طور پر کچھ مستحکم ہوکر شادی جیسی اہم ذمہ داری اٹھانے کا فیصلہ کریں۔
 
گزشتہ کچھ عرصے سے یہ بات تواتر سے کہی جانے لگی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کی قابض بھارتی فورسز کے خلاف تحریک آزادی کی جنگ بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے جس میں اگر ایک طرف نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوکر خانگی امور کی جانب کم توجہ دیتے ہیں تو دوسری طرف اس جنگ میں اب تک ہزاروں نوجوان شہید ہوچکے ہیں بلکہ کچھ حقوق گروپس یہ تعداد ایک لاکھ تک بتاتے ہیں اور اس طرح شادی کے لئے لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی تعداد بتدریج کم ہورہی ہے۔
 
میں نے جب یہ سوال کشمیریوں کی سفارتی جنگ لڑنے اور دنیا بھر میں ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چئیرمین الطاف وانی کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا”آپ کی یہ بات درست ہے کہ کشمیر نے جاری جدوجہد آزادی میں ایک نسل کھوئی ہے، لیکن یہ اس مسئلے کی واحد وجہ نہیں ہے۔“ انھوں نے کشمیر میں تاخیر سے ہونے والی شادیوں کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ یہ مسئلہ جاری جدوجہد آزادی سے پہلے سے چلا آرہا ہے اور بالخصوص سرینگر اور دیگر کچھ قصبوں میں یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ لیکن دیہی علاقوں میں یہ مسئلہ نیا ہے۔
الطاف وانی نے کہا کہ تاخیر سے ہونے والی شادیوں کی بڑی وجوہات طبقاتی امتیاز، ذات پات، مالی و سماجی مرتبہ، جاب سیکیورٹی اور جہیز ہیں۔ اس کے علاوہ وادی میں امیر لوگوں نے جو رسوم ورواج اپنائے ہیں اس نے غریب طبقے کو بہت متاثر کیا ہے۔ جہیز کا نظام شہروں سے پہلے قصبات اور پھر دیہاتوں تک پھیل گیا۔ جبکہ لڑکیوں کی تعلیم نے بھی اس مسئلے کی شدت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب خواتین کے لئے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے جوڑ کا رشتہ ملنا مشکل ہوتا ہے۔ ذات پات اور خاندانی تقسیم کی سطح پر دیکھا جائے تو کئی خاندان اپنی برادری اور ذات سے باہر رشتہ کرنے کو ترجیح نہیں دیتے جس کی وجہ سے غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
 
ہما کرمانی سماجی کارکن ہیں اور وہ خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم ہیں۔ انھوں نے اس مسئلے کا ذرا مختلف انداز سے جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ کشمیر ظلم و بربریت کی آگ میں جل رہا ہے جہاں طویل لاک ڈاونز اور بھارتی فورسز کی ظالمانہ کاروائیوں نے عوام کا ذہنی سکون چھین لیا ہے، وہاں معیاری تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع کم ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کی شادیاں تاخیر سے ہورہی ہیں۔ کشمیر مسلسل جنگی جرائم کا شکار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ جدیدیت کے منفی اثرات، مادہ پرستی اور ثقافتی تضادات کا بھی شکار ہورہا ہے جس سے مختلف سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ کرمانی کا بھی خیال ہے کہ جہیز، غربت، بے روزگاری اور مہنگی شادیوں کا رواج اس سلسلے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
ماہرین کے مطابق تاخیر سے ہونے والی شادیوں کے سنجیدہ سماجی و نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب یہ معاملہ ماہر نفسیات اور پناگاہوں میں مقیم خواتین کے لئے کام کرنے والے گروپس سے منسلک رہنے والی سعدیہ اشرف کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز میں خواتین میں جذباتی مسائل پیدا ہونا بہت عام ہیں، ان میں ڈپریشن کی علامات پیدا ہوجاتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ سائیکاٹک ڈپریشن میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں روزمرہ کی سرگرمیوں میں ان کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے، وہ ناامیدی، خود اعتمادی کی کمی، منفی سوچ اورخود تنقیدی کا شکار ہوجاتی ہیں۔
 
سعدیہ اشرف کا مزید کہنا تھا کہ ایسی خواتین مسائل پیدا کرنے والے فیصلے کرنے لگتی ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑجاتی ہیں، وہ سماجی سرگرمیوں سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان میں احساس ندامت پیدا ہوجاتا ہے اور وہ ماضی پر افسوس کرنے لگتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان میں مستقبل کے بارے میں بھی خدشات جنم لیتے ہیں۔ اور اس طرح ان کی شخصیت شدید متاثر ہوتی ہے۔ یہ اثرات وقت کے ساتھ ساتھ مزید شدت اختیار کرلیتے ہیں اور خواتین میں ذہنی تھکاوٹ، جسمانی تھکن کا باعث بنتے ہیں۔ ان مسائل کی واحد وجہ شادی میں تاخیر تو نہیں ہے لیکن یہ چیزدیگر مختلف مسائل کے ساتھ مل کر سنگین نفسیاتی کیفیت کا باعث بنتی ہے۔ ایسی خواتین جنھیں ماضی میں بڑے صدمے سہنا پڑے ہوں ان کے سنجیدہ نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہونے کے چانسز مزید بڑھ جاتے ہیں۔
ایک قدامت پسند معاشرہ ہونے کی وجہ سے اس مسئلے سے دوچار خواتین بڑی مشکل سے اس موضوع پر بات کرنے کے لئے تیار ہوتی ہیں۔ سکینہ (فرضی نام) نے سرینگر سے ٹیلی فون پر نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا”میری عمر اس وقت لگ بھگ 42 برس ہے۔ ابتداء میں بہتر رشتے کے انتظار میں میں نے کئی رشتے مسترد کئے، میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ سب کچھ اتنا جلدی بدل جائے گا۔ سات سال پہلے میرے والد کا انتقال ہوا اور اب میں اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ اکیلے رہ رہی ہوں جو اکثر بیمار رہتی ہیں۔ میں پرائیویٹ ملازمت کرتی ہوں جس سے گھر کا خرچ اور والدہ کی دوائیں بمشکل پوری ہوتی ہیں۔ اس وقت میرا واحد سہارا میری ماں ہے، اکثر سوچتی ہوں کہ خدانخواستہ انھیں بھی کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ موجودہ مشکلات تو اپنی جگہ لیکن مستقبل کے بارے میں بھی طرح طرح کے اندیشے پریشان کئے رکھتے ہیں۔ہر وقت ایک پریشانی کی کیفیت رہتی ہے۔ شاید میں نے ماضی میں غلط فیصلے کئے یا یہ میری قسمت تھی۔“
 
ماہر نفسیات سعدیہ اشرف کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایک غیرشادی شدہ خاتون ہونا زندگی کا ایک تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے اور ایسی خواتین کی زندگیاں مکمل تبدیل ہوجاتی ہیں۔ معاشرے میں ان کا وقار اور احترام کم ہوجاتا ہے۔ مگرایسی خواتین کی کونسلنگ کرکے ان کی حالت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ اگر انھیں زندگی کے نئے معنی سمجھائی جائیں، انھیں بتایا جائے کہ ان کی موجودگی کتنی اہم ہے، وہ کس طرح مختلف ذمہ داریاں نبھا سکتی ہیں۔ ان کی غلط فہمیاں دور کرکے ان میں اپنی ذات کے بارے میں مثبت تصورپیدا کیا جائے اور معاشرے میں ایڈجسٹ ہونے کے قابل بنانے میں مدد کی جائے تو انھیں معلوم ہوگا کہ اصل مسئلہ مسئلے کی موجودگی نہیں بلکہ اس سے نمٹنے کا انداز ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔