بھارت میں دو بھائیوں نے ایک ہی خاتون سے بیاہ رچالیا

نئی دہلی: بھارت کی سیاحتی ریاست ہماچل پردیش میں ہاٹی قبیلے کے دو بھائیوں نے ایک ہی خاتون سے شادی کرلی اور تقریب میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہماچل پردیش کے گاؤں شیلائی میں ہاٹی قبیلے کے دو بھائیوں نے ایک ہی خاتون سے شادی کرلی اور ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کے رواج کے تحت ہونے والی اس شادی کی تقریب میں علاقے کے سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دلہن سنیتا چوہان اور دونوں دولہا پرادیپ اور کپیل نیگی نے کہا کہ انہوں نے یہ شادی کرنے کا فیصلہ کسی دباؤ کے بغیر کیا ہے۔
ضلع سرمور کے ٹرانس گیری کے علاقے میں شادی کی تقریب میں مقامی فوک گانوں اور رقص کیا گیا، شادی کی تقریب 12 جولائی کو شروع ہوئی تھی اور تین دنوں تک تقریبات جاری رہیں اور بھارت میں سوشل میڈیا کے صارفین میں شادی کی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہوئیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ہماچل پردیش کے ریونیو قوانین کے مطابق اس رواج کو جواز بخشا گیا ہے اور اس کو جودیدارا کا نام دیا گیا ہے،ضلع ٹرانسگیری کے گاؤں بدھانا میں گزشتہ 6 برسوں کے دوران اس طرح کی 5 شادیاں ہوچکی ہیں۔
دُلہن سنیتا کا تعلق گاؤں کنہاٹ سے ہے اور شادی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ اس تہوار سے باخبر تھیں اور اپنا فیصلہ بغیر کسی دباؤ کے کیا اور جو رشتہ بن گیا ہے اس کا احترام کرتی ہیں۔
دولہا پرادیپ کا تعلق شیلائی گاؤں سے ہے اور وہ سرکاری ملازمین اور ان کے چھوٹے بھائی کپیل بیرون ملک نوکری کر رہے ہیں۔
پرادیپ نے کہا کہ ہم نے روایت کی پیروی کھلے عام کی ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے، یہ مشترکہ فیصلہ تھا۔
کپیل نے بتایا کہ وہ بیرون ملک رہتے ہیں لیکن اس شادی کے ذریعے ہم اپنی بیوی کو ایک متحد خاندان کے تحت تعاون اور محبت یقینی بنا رہے ہیں اور ہم شفافیت پر یقین رکھتے ہیں۔
پرادیپ اور کپیل کا تعلق ہاٹی قبیلے سے ہے جو ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے سرحدی علاقے میں آباد ہے اور تین برس قبل اس قبیلے کو شیڈول ٹرائب قرار دیا گیا تھا۔
مذکورہ قبیلے میں ایک خاتون کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی روایت صدیوں سے چلی آرہی تھی، لیکن خطے میں آباد قبیلوں کی خواتین میں تعلیم اور معاشی بہتری کے بعد خواتین کے ایک سے زائد شوہر رکھنے کے روایت دم توڑ گئی تھی۔
مذکورہ گاؤں کے بزرگوں نے بتایا کہ اس طرح کی شادیاں خفیہ طور پر کی جاتی ہیں اور معاشرے میں تسلیم کی جاتی ہیں، لیکن اس کی تعداد کم ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ اس طرح شادیوں کے رواج کی ایک وجہ آبائی زمینوں کو تقسیم ہونے سے بچانا ہے کیونکہ آبائی جائیداد میں قبائیلی خواتین کے حصے کا معاملہ اس وقت بھی بنیادی تنازع ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہاٹی قبیلہ تقریباً ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے جو ضلع سمور کے ٹرانس گیری کے 450 گاؤں میں آباد ہے اور چند گاؤں میں ایک سے زیادہ مردوں میں ایک ہی بیوی رکھنے کا رواج تاحال موجود ہے۔
اسی طرح اترکھنڈ کے علاقے جونسار بابر اور ہماچل پردیش کے قبائلی ضلع کنور میں بھی یہ روایت پائی جاتی تھی۔
ہاٹی قبیلے کی مرکزی تنظیم کندریا ہاٹی سمیٹی کے جنرل سیکریٹری کندن سنگھ شاستری نے بتایا کہ یہ روایت ہزاروں برس قبل خاندانوں کی زرعی زمینیں مزید تقسیم سے بچانے کے لیے شروع کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی شادیوں کی دوسری وجہ بھائی چارے کے فروغ اور الگ ماؤں سے جنم لینے والے دو یا اس سے زیادہ بھائیوں کی ایک خاتون سے شادی کے ذریعے جوائنٹ فیملی کو قائم رکھنا ہے۔
تیسری وجہ انہوں نے سیکیورٹی بتائی کہ اگر خاندان بڑا ہوتا ہے جہاں زیادہ مرد ہوتے ہیں تو قبائلی معاشرے میں آپ زیادہ محفوظ تصور ہوتے ہیں اور اس سے پہاڑی علاقوں میں پھیلی ہوئی زرعی اراضی کا انتظام چلانے میں بھی مدد ملتی ہے کیونکہ ان زمینوں میں طویل عرصے تک نگرانی اور زراعت کی ضرورت ہوتی ہے۔
شاستری نے کہا کہ قبائلی خاندانوں کی ضروریات کی وجہ سے ایک سے زیادہ بھائیوں میں ایک ہی بیوی رکھنے کا نظام ہزاروں برس پہلے شروع ہوا تھا تاہم یہ روایات وقت کے ساتھ کم ہورہی ہیں۔
بھارت کے مذکورہ علاقے کی قبائلی روایت کو جاجدا کا نام بھی دیا گیا ہے، جس میں دلہن کو دولہے بارات کی شکل میں اپنے گاؤں لاتے ہیں اور سینج کے نام سے مشہور رسم کو دولھوں کے گھر میں انجام دی جاتی ہے۔
اس رسم میں پنڈت دولھوں اور دلہن پر پانی چھڑکتے ہوئے مقامی زبان میں بھجن گاتا ہے اور آخر ان کو میٹھا پیش کرتا ہے اور ان کی شادی کی کامیابی کے لیے دعائیں دیتا ہے۔

 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔