نگراں حکومت کی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے کاوشیں
نگراں حکومت محض چند ماہ میں ہی معیشت کو پٹری پر واپس لانے میں سرخرو نظر آرہی ہے۔ اُس نے انتہائی قلیل مدت میں معاشی بہتری کے لیے عظیم فیصلے کیے، جن کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستانی معیشت پر چھائے سیاہ بادل چھٹ رہے اور ان شاء اللہ کچھ ہی سال میں ملک و قوم خوش حالی سے ہمکنار دکھائی دیں گے۔ معاشی بہتری اور ملکی ترقی کے حوالے سے مثبت اشاریے سامنے آرہے ہیں۔
نگراں حکومت کے اقدامات کے باعث 4 ماہ میں پاکستان کی علاقائی برآمدات میں 14.21 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 4 ماہ میں مچھلی کی برآمدات کے ذریعے 123.86 ملین ڈالر ملک کو حاصل ہوئے۔ بیرون ممالک سے بڑی سرمایہ کاریوں کی آمد کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ قازقستان پاکستان سے مزید ٹیکسٹائل درآمدات کا متمنی ہے، اس کے لیے اُس نے 2 بلین ڈالر کی پیشکش کی ہے۔
پاکستان میں زرعی انقلاب لانے کے لیے UN FAO کے 40 عظیم منصوبے جاری ہیں۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے سندھ میں گیس اہداف منصوبوں کے لیے 423 ملین روپے کی (ٹیک سپلیمنٹری گرانٹ) TSG کی منظوری دی۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے قومی تاریخ میں پہلی بار 60,000 پوائنٹس کا ہندسہ عبور کیا۔ پاکستان اور کویت افرادی قوت، توانائی، دفاع سے متعلق 7 مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کریں گے۔ پاکستان اور کویت کے درمیان 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔
حال ہی میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کئی بلین ڈالر مالیت کے مفاہمت نامے پر دستخط ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے معدنیات کی دُنیا کے بڑے ناموں کی نظریں پاکستانی کان کنی کے منصوبے پر ہیں۔ اس حوالے سے تقریباً 2.5 بلین روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
وفاقی حکومت نے 6.8 بلین روپے کے صحت پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک میں سامان کے غیر قانونی داخلے کو روکنے کے لیے، حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت درآمد کردہ اشیاء پر 10 فیصد پروسیسنگ فیس کا اعلان کیا۔ اس اقدام کا مقصد اسمگلنگ کو روکنا اور مناسب ٹیکس کا حصول یقینی بنانا ہے۔
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کی اپیکس کمیٹی کے ایک خصوصی اجلاس نے متفقہ طور پر دوست ممالک کے ساتھ رابطے کے لیے مختلف اقدامات کی منظوری دی اور اس حوالے سے مختلف منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد کی ہدایت کی۔ SIFC کمیٹی نے تیل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے کیے گئے اقدامات اور منصوبوں کو سراہا۔ تاجروں نے SIFC-CPEC اشتراک پر زور دیا۔
کراچی میں پانی کی چوری کے خلاف کارروائی میں 150 سے زائد ہائیڈرنٹس مسمار اور 1200 غیر قانونی کنکشن منقطع کیے گئے۔ نگراں حکومت کی اسمگلنگ مخالف مہم میں بڑی کامیابیاں ملیں، روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان اسمگل ہوتے تھے۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق تاجر اور اسمگلر یومیہ 5 ملین ڈالر منتقل کررہے تھے۔ انسداد اسمگلنگ کے موثر اقدامات کے ذریعے ڈالر کی قدر 315 روپے سے کم ہوکر 276 روپے پر آگئی۔ پٹرول کی قیمت 330 روپے سے کم ہوکر 283 روپے پر آگئی، آٹے کے نرخ میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے افغانستان اسمگل کی جانے والی کھاد بھاری مقدار میں قبضے میں لی۔ ان مسلسل اقدامات کے باعث یوریا کی مارکیٹ قیمت 600 روپے فی بوری گھٹ کر 500 روپے پر آگئی۔
فاریکس ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق کریک ڈاؤن کے بعد تقریباً 1 بلین ڈالر بینکوں میں جمع کرائے گئے۔ کرنسی ڈیلرز کا یومیہ اوسط تجارتی حجم 5-7 ملین ڈالر سے بڑھ کر متاثر کن حد تک 50 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ سال کے 3.1 بلین ڈالر کے مقابلے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں مالی سال جولائی تا اکتوبر کے دوران 1.1 بلین ڈالر تک نمایاں طور پر بہتر ہوا۔ یہ سب نگراں حکومت کے ملک و قوم کے مفاد میں کیے گئے احسن اقدامات کے طفیل ممکن ہوا ہے۔ اس پر اُس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔