افغان حکومت خطے اور دُنیا کیلئے خطرہ

دانیال جیلانی
پچھلے چند سال سے پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھا رہا ہے، اس کی وجہ ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہ ہیں، جو افغانستان کی پشت پناہی میں پاکستان کے امن کے درپے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی حالیہ بریفنگ میں نہ صرف پاکستان کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز کا جامع نقشہ سامنے آیا ہے بلکہ ان عوامل کی نشان دہی بھی ہوئی ہے جو ملک کی داخلی کمزوریوں، علاقائی پیچیدگیوں اور عالمی سیاسی تغیرات کے تناظر میں پاکستان کی سلامتی کو براہِ راست متاثر کررہے ہیں۔ یہ بریفنگ اُن تمام مباحث کے دروازے کھولتی ہے جو طویل عرصے سے ملکی بیانیے، حکمتِ عملی اور پالیسی کے درمیان الجھے ہوئے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی افواج کے انخلا کے دوران 7.2 بلین ڈالر مالیت کا عسکری ساز و سامان افغانستان میں چھوڑ دیا گیا، جو اَب طالبان رجیم کے زیرِ قبضہ ہے اور مختلف دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوکر پورے خطے کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ اگر 2021 کے بعد افغانستان میں ریاستی ڈھانچہ قائم نہ ہوسکا اور طالبان حکمرانی ایک جامع سیاسی نمائندگی سے محروم رہی، تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو پہلے سے زیادہ کھلی چھوٹ ملے۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال یکسر ناقابلِ قبول ہے، کیونکہ دہشت گردی کی حالیہ لہر اسی غیر مستحکم علاقائی ماحول کا شاخسانہ ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف 4910 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جن میں سیکڑوں دہشت گرد مارے گئے۔ رواں سال مجموعی طور پر 67023 آئی بی اوز ملک بھر میں انجام دیے گئے جبکہ 1873 دہشت گرد ہلاک ہوئے، جن میں غیر ملکی عناصر بھی شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے انتھک جدوجہد میں مصروف ہیں، مگر چیلنجز کی نوعیت اتنی پیچیدہ ہے کہ محض آپریشنز کافی نہیں، سرحدی مینجمنٹ، داخلی گورننس، سیاسی عزم اور علاقائی ڈپلومیسی کے بغیر یہ جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔
خیبر پختونخوا میں پاک افغان بارڈر کا 1229 کلومیٹر طویل پھیلاؤ اور 20 کراسنگ پوائنٹس اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ علاقہ جغرافیائی و قبائلی تقسیم کا منفرد نمونہ ہے۔ بارڈر فینسنگ اُس وقت تک کارگر نہیں ہوسکتی جب تک اسے فائر اور آبزرویشن کور حاصل نہ ہو۔ بارڈر کے دونوں جانب پھیلے منقسم گا¶ں نہ صرف آمدورفت کو پیچیدہ بناتے، بلکہ دہشت گردوں کو محفوظ راستے فراہم کرتے ہیں۔ افغان طالبان کے تعاون کے بغیر بارڈر مینجمنٹ ناقابلِ عمل ہے، یہ حقیقت جتنی جلدی کابل تسلیم کرے، اُتنا ہی خطے کے لیے بہتر ہوگا۔ اگر طالبان حکومت دہشت گرد عناصر کو مکمل سہولت فراہم کرتی رہتی ہے، جیسا کہ پاکستان بارہا شواہد کے ساتھ بتاچکا، تو پھر سوال صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پورے خطے کی سلامتی کا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک اہم نکتہ اٹھایا: بیرونِ ملک سے چلنے والی سوشل میڈیا مہمات پاکستان کے خلاف زہریلا بیانیہ پھیلارہی ہیں۔ یہ معلوماتی جنگ کا وہ دور ہے جس میں دشمن ریاستوں کے توپ و تفنگ ضروری نہیں، چند ہزار آن لائن اکاؤنٹس اور ایک مربوط نیٹ ورک بیانیوں کو مسخ کرنے، اداروں پر اعتماد گھٹانے اور معاشرتی تقسیم پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا پھیلاؤ، ایرانی ڈیزل کی منظم اسمگلنگ اور سیاسی جرائم، دہشت گردی nexus نہ صرف ریاستی رٹ کے لیے چیلنج ہے، بلکہ ان غیر قانونی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی رقم براہِ راست دہشت گرد گروہوں کے پاس جاتی ہے۔ بلوچستان میں روزانہ 20.5 ملین لیٹر ڈیزل کی اسمگلنگ کا اعداد و شمار خود بتاتا ہے کہ ریاست کو کس نوعیت کی اندرونی معیشتی سیکیورٹی درکار ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاقِ رائے ہمیشہ موجود رہا ہے مگر پالیسی عمل درآمد کے میدان میں صوبائی اور وفاقی سطح پر فرق نمایاں رہا ہے۔ بلوچستان میں جہاں NAP پر واضح پیش رفت ہوئی، وہیں خیبر پختونخوا میں ایک وسیع خلا دکھائی دیتا ہے۔ اگر بلوچستان کے 27 اضلاع کو پولیس کے دائرہ اختیار میں لایا گیا اور روزانہ ہزاروں عوامی انگیجمنٹس ہورہی ہیں تو یہ ایک کامیاب ماڈل ہے جسے ملک کے دیگر حصوں میں بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا یہ مطالبہ کہ افغان طالبان خود کو ایک ریاست کی طرح منظم کریں، بین الاقوامی ذمے داریوں کو تسلیم کریں اور اپنی سرزمین پاکستان اور دیگر ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں، ایک جائز اور حقیقت پسندانہ مطالبہ ہے۔ طالبان کا یہ کہنا کہ پاکستان پر حملے کرنے والے عناصر ٴٴمہمانٴٴ ہیں، نہ صرف غیر منطقی بلکہ یہ سوال بھی پیدا کرتا ہے کہ کیا افغانستان اپنی سرزمین پر ریاستی اختیار قائم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟ اگر افغانستان کو بین الاقوامی برادری میں قبولیت چاہیے تو اسے دہشت گردوں کے خلاف قابلِ تصدیق میکانزم پر عالمی اصولوں کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان میں بھارتی قیادت کے حالیہ بیانات پر بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔ بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت مسلسل پاکستان دشمن بیانیہ عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ کوئی محدود جنگ یا ٴٴٹریلرٴٴ دکھا کر پاکستان کو دبایا جاسکتا ہے تو یہ اس کی تاریخی غلط فہمی ہے۔ رواں سال جنگ مئی کی عبرت ناک شکست کو اُسے بھولنا نہیں چاہیے۔ دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں اور کسی بھی قسم کی فوجی مہم جوئی خطے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاسکتی ہے۔ پاکستان کے سیکیورٹی چیلنجز محض عسکری نوعیت کے نہیں، یہ معاشرتی، سیاسی، سفارتی اور معیشتی سطحوں پر مربوط حکمتِ عملی کے متقاضی ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں سخت اور حقیقت پسندانہ سفارت کاری ناگزیر ہے۔ داخلی گورننس، پولیسنگ اور صوبائی سطح پر NAP پر عملدرآمد کو م¶ثر بنانا ہوگا۔ اسمگلنگ، غیر قانونی تجارت اور جرائم پیشہ، سیاسی، دہشت گرد nexus کو توڑنا ہوگا۔ آن لائن معلوماتی جنگ کا مقابلہ سچ، شفافیت اور فعال اسٹرٹیجک کمیونیکشن کے ذریعے کرنا ہوگا۔ سرحدی مینجمنٹ کو جدید ٹیکنالوجی اور مقامی کمیونٹیز کی شمولیت سے مضبوط کرنا ہوگا۔ آخر میں یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان کی سلامتی محض ایک خطہ یا ایک ادارے کا مسئلہ نہیں، یہ قومی وجود کا سوال ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ ہمیں وہ تلخ آئینہ دکھاتی ہے جس میں ہمارے چیلنجز کی اصل شکل موجود ہے۔ اب وقت ہے کہ فیصلے بھی اسی حقیقت پسندی سے کیے جائیں۔