معروف علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی کی 5 ویں برسی
کراچی: آج اردو کے نقاد، ماہر لسانیات، ادبی مؤرخ ڈاکٹر جمیل جالبی کی پانچویں برسی منائی جارہی ہے۔ آپ 12 جولائی 1929 کو علی گڑھ میں ایک تعلیم یافتہ، معزز گھرانے میں پیدا ہوئے، اصل نام محمد جمیل خان ہے۔ اردو ادب کے معروف صحافی سید جالب دہلوی اور جالبی صاحب کے دادا دونوں ہم زلف تھے۔ محمد جمیل خان نے کالج کی تعلیم کے دوران ہی ادبی دُنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ ان دنوں ان کا آئیڈیل سید جالب ہی تھے۔ اسی نسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ جالبی کا اضافہ کرلیا۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد 1947 میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور ان کے بھائی عقیل ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی 1983 میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور 1987 میں مقتدرہ قومی زبان (موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) کے چیئرمین تعینات ہوئے، اس کے علاوہ آپ 1990 سے 1997 تک اُردو لغت بورڈ کے سربراہ بھی مقرر ہوئے۔
جہاں تک تصانیف کا تعلق ہے، جمیل جالبی کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی، جو انہوں نے بارہ سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈرامہ اسکول میں اسٹیج کی گئی۔ ایک اور مشہور تصنیف تاریخ ادب اردو ہے، جس کی چار جلدیں شاءع ہوچکی ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، میر تقی میر، معاصر ادب قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم رائو پدم رائو، دیوان حسن شوقی اور دیوان نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی ان کی اہم تصنیفات ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے، جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں۔ علمی و ادبی دُنیا میں ڈاکٹر جمیل جالبی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ان کی خداداد صلاحیتوں کے اعتراف میں 1964، 1973، 1974 اور 1975 میں دائود ادبی انعام، 1987 میں یونیورسٹی گولڈ میڈل، 1989 میں محمد طفیل ادبی ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی جانب سے 1990 میں آپ کو پاکستان کے سب سے بڑے ادبی انعام کمال فن ادب سے نوازا گیا تھا۔ ادب میں خدمات کے اعتراف پر ڈاکٹر جمیل جالبی (مرحوم) کو حکومت پاکستان نے نشان امتیاز، ہلال امتیاز اور ستارۂ امتیاز سے سرفراز کیا۔ گو آج ان کو ہم سے رخصت ہوئے 5 سال بیت گئے ہیں، لیکن اردو ادب میں ان کا خلا کبھی پُر نہیں ہوسکے گا۔