امریکا میں آواز سے پانچ گنا تیز رفتار میزائل کی آزمائش
واشنگٹن ڈی سی: امریکی دفاعی ادارے پنٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ ’’ہوا میں سانس لینے والے‘‘ ہائپر سونک میزائل کی آزمائش کامیابی سے مکمل کرلی گئی ہے۔
آسان الفاظ میں کہا جائے تو یہ ایسا میزائل ہوگا جو واشنگٹن سے بیجنگ تک صرف دو گھنٹے میں پہنچ جائے گا۔
یہ تجربہ گزشتہ ہفتے پنٹاگون کے ذیلی ادارے ’’ڈارپا‘‘ کی نگرانی میں ریتھیون ٹیکنالوجیز اور نارتھروپ گرومین کی ٹیموں نے مشترکہ طور پر انجام دیا۔
واضح رہے کہ تکنیکی زبان میں آواز سے پانچ گنا یا اس سے بھی زیادہ رفتار کو ’’ہائپر سونک‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ ’’ہوا میں سانس لینے والے‘‘ ہتھیار، پرواز کے دوران ارد گرد کی ہوا جذب کرکے اپنے ایندھن کے ساتھ ملا کر جلاتے ہیں اور گرم گیس کا زبردست جھکڑ خارج کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھتے ہیں۔
ہائپرسونک ہتھیاروں کا یہ منصوبہ ’’ہاک‘‘ (ہائپرسونک ایئر بریدنگ ویپنز کونسپٹ) کہلاتا ہے جس پر دفاعی تحقیق کے امریکی ادارے ’’ڈارپا‘‘ کی نگرانی میں 2013 سے کام جاری ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران ہتھیاروں کی عالمی دوڑ ایک نئے موڑ پر پہنچ گئی ہے اور امریکا اس دوڑ میں پیچھے رہنے کو تیار نہیں۔
چینی فوج ’’پیپلز لبریشن آرمی‘‘ کے پاس پہلے ہی خاصی تعداد میں ہائپرسونک میزائل موجود ہیں جبکہ اس سال جولائی میں روس نے بھی ’’زرکون‘‘ کے نام سے ایک نئے ہائپر سونک کروز میزائل کے کامیاب تجربے کا اعلان کردیا۔
اس موقع پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے دعوی کیا تھا کہ دنیا میں کوئی کروز میزائل اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
روس کے بعد شمالی کوریا نے بھی ہائپرسونک میزائلوں کی کامیاب آزمائشوں کا اعلان کردیا، جس سے پنٹاگون میں تشویش مزید گہری ہوگئی۔
اگرچہ ہائپرسونک ہتھیاروں کی امریکی ٹیکنالوجی کو عملی میدان میں اترنے کےلیے اب بھی کئی سال درکار ہیں لیکن پنٹاگون کی جانب سے اعلان کا وقت ظاہر کرتا ہے کہ اکیسویں صدی کی سرد جنگ میں بھی امریکا اپنی پیشہ ورانہ اور ٹیکنالوجیکل برتری کا تاثر برقرار رکھنا چاہتا ہے