واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز، سپریم کورٹ طلب

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ طلب کرلیا اور ریمارکس دیے ہیں کہ تنقید کرنی ہے تو سامنے آکر کریں۔
سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کررہا ہے، جس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس سنی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھ تک مکمل وڈیو ابھی نہیں پہنچی، کچھ حصہ خبروں میں سنا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ پریس کانفرنس توہینِ عدالت کے زمرے میں آتی ہے؟ کوئی مقدمہ اگر عدالت میں زیر التوا ہو تو اس پر رائے دی جاسکتی ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سے کہیں زیادہ باتیں میرے خلاف کی گئیں، لیکن کیا آپ اداروں کی توقیر کم کرنا شروع کردیں گے۔ اگر میں نے کچھ غلط کیا تو مجھے کہیں، عدالت کو نہیں۔ وکلا، ججز اور صحافیوں سب میں اچھے بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں۔ باپ کے گناہ کی ذمے داری بیٹے کو نہیں دی جاسکتی۔ کیا ایسی باتوں سے آپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شفافیت لانے کی کوشش کی، اپنے اختیارات کم کیے، بندوق اٹھانے والا اور گالی دینے والا کمزور ترین شخص ہوتے ہیں۔ جس کے پاس دلیل ختم ہو، وہ بندوق اٹھاتا یا گالی دیتا ہے۔ ایک کمشنر صاحب اٹھے اور کہا میں نے انتخابات میں دھاندلی کروائی۔ بھئی بتاؤ تو سہی چیف جسٹس کیسے دھاندلی کروا سکتا ہے؟، مہذب معاشروں میں ایسے الزامات نہیں لگائے جاتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میری جانب سے نظرانداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کرلیں؟، بُرا کیا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں۔ ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ادارے عوام کے ہوتے ہیں۔ اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا۔ اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جاسکتی۔ بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیوں کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے۔ ایک کمشنر نے مجھ پر الزام لگایا سارے میڈیا نے اسے چلا دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا، اس لیے وہاں توہینِ عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے۔ چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں۔ فیصل واوڈا کے بعد مصطفیٰ کمال بھی سامنے آگئے۔ دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں، ایوان میں بولتے۔ ایسی گفتگو کرنے کے لیے پریس کلب ہی کا انتخاب کیوں کیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جاسکتی۔ اگر توہین عدالت کی کارروائی چلائی تو کیس میں استعاثہ کون ہوگا؟۔ استغاثہ اٹارنی جنرل ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب وزن آپ کے کندھوں پر ہے۔ کیا شوکاز نوٹس ہونا چاہیے یا صرف نوٹس ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے۔ جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے، وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا۔ غلطیاں ہوئیں انہیں تسلیم کرکے آگے بڑھیں۔ اسکول میں بچہ غلطی تسلیم کرے تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔
بعدازاں عدالت نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو تنقید کرنی ہے ہمارے سامنے کریں۔ دونوں افراد کو نوٹس جاری کرتے ہیں۔ ہمارے منہ پر آکر تنقید کرلیں۔
سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے دونوں کو 5 جون کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ عدالت نے پیمرا سے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور متن بھی طلب کرلیا اور اس سلسلے میں اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کردیا۔

 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔