سپریم کورٹ بل: پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک فراہم کرنے کا حکم
اسلام آباد: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو پارلیمانی اور قائمہ کمیٹی کی کارروائی کا ریکارڈ کل تک فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی، جس کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آگئے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ دوران سماعت مسلم لیگ ن نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالت کو درخواست دے دی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروادی ہیں؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا۔ اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے۔ قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں۔ سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے۔سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلق فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے، رولز میں ترمیم کا نہیں۔ قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بینچز معمول میں سنتے رہے ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 1992ء تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی۔ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا۔ رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی۔ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا، اس لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے۔ کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟۔ کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟۔ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے یہ یقین کیسے ہوگا کہ کون سا کیس فل کورٹ سنے؟۔ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر یہ آپ کا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے۔ عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے۔ اگر 3 رکنی بینچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آجائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ فل کورٹ اپنے رولز بنا چکی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں قانون سازی کا اختیار چیلنج ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور 3 رکنی بینچ کا برا ہو گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ کی منطق یہ ہے کہ رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل کے مطابق 5 رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا۔ یا تو آپ کہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایاہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے قانون پر عمل درآمد سے روک رکھا ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی؟۔ پارلیمنت کہتی ہے 5 رکنی بینچ ہو، اٹارنی جنرل کہتے ہے فل کورٹ ہو۔ لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑ گئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جاسکتی ہے۔ قانون میں کم سے کم 5 ججز کا لکھا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارلیمنت 5 ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے۔ ہائیکورٹ بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں۔ کیا ہائیکورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے۔ 2012ء میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جاچکا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ میں 60 اور سندھ ہائیکورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں، اس پر بات نہیں کروں گا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہے کہ بینچ حکم امتناع میں اپنا ذہن دے چکا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائی کورٹس فل کورٹ بنانے کی پابند ہوں گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنادے تو کیا پوری ہائیکورٹ مقدمہ سنے گی؟۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا تمام 8 ججز فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنے گی؟۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر بھی سوال ہے؟۔ ایسی درخواست انتظامی سطح پر دی جاسکتی ہے؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی گزارش کرسکتے ہیں۔جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں آپ چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کررہے ہیں۔ کیا عدالت چیف جسٹس کو حکم دے سکتی ہے؟۔ ایسی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی رہی ہے۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں، لیکن عدالت کو سمجھ آ گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا۔ جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہ بھی دی گئی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس انورالحق نے اعتراض مسترد کیا۔ 9 رکنی فل کورٹ میں چیف جسٹس خود بھی شامل تھے۔ موجودہ درخواست میں کسی جج یا چیف جسٹس پر اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراض ہو تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کرچکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے۔ عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف آئین کی تشریح کا نہیں ہے۔ آئینی ترامیم کیس میں عدالت نے فوجی عدالتیں درست قرار دی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس آئینی کا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ مستقبل کے لیے ہوتاہے۔ 20سال بعد شاید زمینی حالات اور آئین مختلف ہو۔
فل کورٹ کی تشکیل پر اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو گئے، جس کے بعد ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل شروع کیے اور کہا کہ حکم امتناع کے ذریعے پہلی مرتبہ قانون پر عملدرآمد روکا گیا ہے۔فل کورٹ کے لیے بینچ درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں۔جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں بھی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا گیا تھا۔ چیف جسٹس خود جسٹس فائز عیسیٰ کیس نہیں سن رہے تھے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل میں مزید کہا کہ 7 رکنی بینچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔ بعض اوقات بینچ خود بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے فائل چیف جسٹس کو بھجواتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسیٰ کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے۔ ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے۔ معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا۔ دونوں ججز کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیے۔ کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے مزید کہا کہ آئی جی جیل خانہ جات کیس میں بھی فل کورٹ تشکیل دیا گیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں جج کو معزول کردیا گیا تھا۔ وہ ماسٹر آف روسٹر کا اختیار استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ معزولی کے بعد قائم مقام چیف جسٹس اس اختیار کو استعمال کررہے تھے۔ مسلم لیگ ن پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو اسٹرکچر نہیں کرتے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے ک ہجو قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے اس میں 5 رکنی بینچ کی بات کی گئی ہے۔مسلم لیگ ن فل کورٹ کی استدعا کیسے کرسکتی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ چیف جسٹس بینچز کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات آتے ہیں۔ سائلین کے اعتراضات پر عدالت فیصلہ کرتی ہے۔ وکیل نے کہا کہ جانبداری پر مبنی کئی فیصلے موجود ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سائلین عدالت میں پیش ہو کر اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں۔
دوران سماعت مسلم لیگ ن نے درخواست میں موجودہ بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ سائلین بھی اپنے مؤقف کے حوالے سے تحریری درخواست دیتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تعین کرے کون سے مقدمات کون سا بینچ سنے گا۔پنڈورا باکس کھولیں گے تو مقدمے میں فل کورٹ کی درخواستیں آجائیں گی۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سوئپنگ قسم کے دلائل نہ دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا ن لیگ کو موجودہ بینچ پر اعتراض ہے ؟آپ نے اپنی درخواست میں اس پر ذکر کیا ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ بالکل غیر معمولی مقدمات میں بھی فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ پیچھے ہیں یہ بھی غیر معمولی نوعیت کا مقدمہ ہے۔
بعدازاں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور مسلم لیگ ن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد اٹارنی جنرل کو پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی کی کارروائی کا ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے عدالتی اصلاحات بل کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔