16 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو بحال کرنے کی استدعا مسترد
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے 16 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو حکم امتناع پر بحال کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
سپریم کورٹ میں 16 ہزار برطرف سرکاری ملازمین کی بحالی کے کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے برطرف ملازمین کو حکم امتناع پر بحال کرنے کی اور فیصلے تک میڈیکل الاؤنس دینے کی استدعا بھی مسترد کردی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کوشش کریں گے روزانہ سماعت کرکے آئندہ ہفتے مختصر فیصلہ سنادیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت خود ملازمین کی بحالی کے لیے عدالت آئی ہے، اگر ملازمین کو غلط نکالا گیا ہے تو حکومت بحال کرے، بعض اداروں نے ملازمین کے کنٹریکٹ ختم ہونے پر انہیں نکالا، کنٹریکٹ میں توسیع کا مطلب ملازمین اس قابل نہیں تھے، کیا ایسے ملازمین کو قانون بناکر زبردستی بحال کیا جاسکتا ہے؟، ایسے ملازمین کو بھی بحال کیا گیا جن کی اپیلیں سپریم کورٹ سے مسترد ہوچکی تھیں، عدالت نے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین سے متصادم ہونے پر قانون کالعدم قرار دیا، جن کے کنٹریکٹ ختم ہوچکے تھے انہیں کیسے بارہ سال بعد بحال کیا گیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بارہ سال بعد برطرف ملازمین کی بحالی نئے امیدواروں کی حق تلفی ہے، ملازمت کے لیے اپلائی کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ملازمین کی بحالی اور مراعات دینے کے لیے قانون موجود ہے، کیا کام کیے بغیر کسی کو 12 سال کی تنخواہ دینے کا قانون بن سکتا ہے؟
ملازمین کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ لوگوں کی عمر زیادہ ہوچکی ان کے بچے اسکول جا رہے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عدالت میں صرف قانون کی بات کریں، ریٹائر ملازمین کو ایک دن نوکری پر بلاکر تمام مراعات دی گئیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ خلاف قانون ملازمین کی تعیناتی اور بحالی غیر آئینی ہوتی ہے، ممکن ہے کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بھی بنایا گیا ہو، مخصوص افراد یا فرد واحد کے لیے بنائے قوانین ماضی میں بھی کالعدم ہوچکے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پیر سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی۔