سپریم کورٹ کا 120 نئی احتساب عدالتوں کی منظوری کابینہ سے لینے کا حکم

اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری وفاقی کابینہ سے لینے کی ہدایت کردی۔
نیب کی جانب سے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں ہوئی۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے دوران سماعت کہا کہ چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹرز کو دھمکیاں مل رہی ہیں، راولپنڈی میں ایک پراسیکیوٹر پر فائرنگ کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ راولپنڈی پولیس تو فائرنگ کا مقدمہ ہی درج نہیں کررہی تھی، نہ پوچھیں فائرنگ کا مقدمہ درج کرانے کے لیے کس کو بیچ میں ڈالنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہمیں فنڈز دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے جب کہ ملزمان کے وکلاء قدآور اور بھاری بھر کم فیس والے ہوتے ہیں۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ نیب پراسیکیوٹرز کی تنخواہیں اور مراعات انتہائی کم ہیں، فنڈز ملیں تو اچھے پراسیکیوٹرز بھرتی کریں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ فنڈز انتظامی معاملہ ہے، اس میں عدالت کچھ نہیں کرسکتی، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سب ہمارے ہی خلاف ہیں، صرف سپریم کورٹ سے حوصلہ ملتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب والے کچے پکے کیس بناکر عدالتوں کو بھیج دیتے ہیں، جس پر پراسیکیوٹر حیدر اصغر نے کہا کہ تفتیشی افسران کی نیویارک اور برٹش پولیس سے تربیت کرارہے ہیں، ان حالات میں بھی نیب 61 فیصد ملزمان کو سزا دلوارہا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ نئی عدالتوں کے قیام میں 2.86 ارب کا مسئلہ چوزے کی خوراک کے برابر ہے، نیب مقدمات جیتے تو ہزار ارب سے زائد کی ریکوری ہوسکتی ہے، 2 ارب تو نیب کے ایک کیس سے ہی نکل آئیں گے، 20، 20 سال سے مقدمات احتساب عدالتوں میں پڑے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کرتے ہوئے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری کابینہ سے لینے کا حکم جاری کردیا۔
عدالت نے کہا کہ سیکریٹری قانون منظوری لے کر ایک ماہ میں ججز تعیناتی کا عمل شروع کریں، نئی احتساب عدالتوں کے لیے انفرا اسٹرکچر بھی بنایا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے نیب کو ایک ماہ میں رول بنا کر پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ رولز نیب آرڈیننس کی سیکشن 34 کے تحت بنائے جائیں، نیب کے ایس او پیز رولز کا متبادل نہیں ہوسکتے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔