افسوس امریکا قربانیاں جلد بھول جاتا، باڑ ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: وزیر داخلہ
اسلام آباد: شیخ رشید نے کہا ہے کہ افغان طالبان کا پاک افغان سرحد سے باڑ ہٹانے کا بیان دیکھا ہے، سرحد پر باڑ بڑی مشکل سے اور اپنے جوانوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے لگائی ہے، جسے ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں، افغانستان میں امن ہی پاکستان میں امن کی ضمانت ہے، افغانستان کے استحکام سے سارے خطے کی ترقی مل سکتی ہے، پاکستان کی کوشش ہے کہ افغانستان میں استحکام کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر طالبان کو ان کے وعدے کی تکمیل پر زور دے، طالبان نے دنیا کے ساتھ جو وعدے کیے وہ پورے ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم عمران خان طالبان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے فیصلہ دنیا کے ساتھ مل کر کریں گے، پاکستان کی جانب سے طالبان کے ساتھ کون رابطہ میں ہے میں نہیں جانتا، لیکن ہماری حکومت کے ذمے دار اور حکام بوقت ضرورت طالبان سے رابطے میں رہتے ہیں، ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ٹی ٹی پی اور داعش افغان سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال نہ کرے، ٹی ٹی پی اور داعش دونوں دہشت گرد تنظیموں کے ممکنہ الحاق کے حوالے سے ابھی کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں لیکن ایسے خدشات اپنی جگہ ہیں، افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کی ضمانت دی ہے، لیکن داعش کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، امید ہے کہ افغان طالبان ذمے داری نبھاتے ہوئے ٹی ٹی پی کو سمجھائیں گے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی نہ کریں، پھر بھی پاک فوج ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں جامع حکومت قائم ہو جس میں تمام افغان گروپوں کو نمائندگی حاصل ہو، یہ فیصلہ افغان عوام کا ہے اور حامد کرزئی یا عبداللہ عبداللہ جیسے سیاست دانوں کو حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ طالبان کو کرنا ہے۔ اگر ہم ملا عبدالغنی برادر اور امریکا کو ایک میز پر بٹھاسکتے ہیں تو اس کا مطلب کہ ہماری طالبان کے ساتھ ذہنی مطابقت ضرور ہے، لیکن وہ ہماری بات مانتے ہیں یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ خطے کی بدلتی صورت حال میں پاکستان کا اہم کردار، چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے بہترین تعلقات سے بھارت کو بہت تکلیف پہنچی ہے، بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان میں موجود اپنے قونصل خانوں کو استعمال کیا، لیکن اب اس کے لیے افغانستان میں مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، ہم افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دے سکتے، تاہم تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لیے آنے والے افراد کو ویزے دیے جائیں گے، ویزے کے بغیر کسی شخص کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی، اب تک ایک بھی افغان شہری مہاجر بن کر پاکستان نہیں آیا اور آج کے روز تک یہی فیصلہ ہے کہ کسی مہاجر کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ حالات کے پیشِ نظر گزشتہ دو تین ماہ سے سول آرمڈ فورسز پیچھے آگئی ہیں اور اس وقت پاکستانی فوج کے ریگولر دستے سرحد پر موجود ہیں، پاک افغان سرحد پر لگی باڑ کے حوالے سے طالبان کا بیان دیکھا ہے، بارڈر پر فینسنگ ایک حقیقت ہے جو بڑی مشکل سے اور اپنے جوانوں کی جانوں کا نذرانہ دے کر لگائی گئی ہے، اس لیے اسے ہٹائے جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پاک افغان سرحد 2700 کلومیٹر طویل بارڈر ہے، اس میں 2290 کلومیٹر پر باڑ لگ چکی ہے اور اب پاک ایران سرحد پر بھی باڑ لگائی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکا کی جنگ میں اپنا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ کروالیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 80 ہزار افراد شہید ہوئے، پاکستان کے 120 ارب ڈالر پرائی جنگ میں جھونک دیے گئے اور اب جب امریکا کی جانب سے جنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے تو ان حالات میں بھی پاکستان نے افغانستان سے انخلا میں امریکا کی مدد کی اور ان کے ڈیڑھ سو سے زائد فوجی پاکستان آئے جنہیں سیکیورٹی دی گئی، لیکن افسوس کہ امریکا ہمیشہ ہماری قربانیوں کو جلد بھول جاتا ہے۔
وزیرداخلہ شیخ رشید کا چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے کہنا تھا کہ سی پیک میں چین کی 40 کمپنیاں کام کررہی ہیں اور ان کی سیکیورٹی پاک فوج کے پاس ہے، سی پیک کے علاوہ بھی چین کی 129 کمپنیاں پاکستان میں کام کررہی ہیں جن کے لیے چینی حکومت نے سیکیورٹی طلب کی ہے، چینی حکام سے ملاقات کے بعد سی پیک منصوبوں کے علاوہ پاکستان میں مقیم چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے مربوط نظام وضع کیا جائے گا۔