تمام علماء متحد، ہمارے سارے مسائل وزارتِ تعلیم سے حل ہوئے، شیخ فرحان نعیم

کراچی: جامعہ بنوریہ عالمیہ کے نائب مہتمم شیخ فرحان نعیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی پریس بریفنگ کا مقصد یہ کہ ہمیں مختلف میڈیا پلیٹ فارمز کی طرف سے مسلسل رابطے کیے جارہے تھے، وفاقی وزارت تعلیم کے تحت کیا مسائل ہیں، بیرون طلبہ کے ویزے لگ رہے ہیں یا نہیں اور اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ تمام میڈیا کے دوستوں کو ایک ساتھ بلاکر اپنے مؤقف کو واضح کریں اور اس سے متعلقہ مسائل پر گفتگو کریں، جامعہ بنوریہ عالمیہ ہمیشہ میڈیا نمائندگان اور میڈیا ہاؤسز کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم رکھنے پر یقین رکھتا ہے، اور ہم اس اہم مسئلے پر ماضی کی طرح آپ کے توسط سے اپنی آواز عوام اور حکام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں مدارس کے غیر ملکی طلبہ کے ویزوں پر پابندی عائد کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، دنیا بھر سے آنے والے ان مہمانانِ رسول ﷺ کو تعلیمی دورانیے کے درمیان ہی نکالا جارہا تھا، ویزوں کے اجرا میں تاخیر، سفری رکاوٹیں اور دیگر انتظامی مسائل نے طلبہ کے لیے چیلنجز پیدا کیے، ہزاروں غیر ملکی مہمان طلبہ در در ٹھوکروں پر مجبور تھے، جامعہ بنوریہ عالمیہ نے ان کے مسائل کو ہمیشہ میڈیا کے ذریعہ اجاگر کیا اور جدوجہد میڈیا ہمیشہ سے ہمارا دست وبازو بنا ہے۔
مرحوم مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ، مفتی محمد نعیم رحمہ اللہ کی اُن کوششوں سے آپ سب بخوبی واقف ہیں، انہی کی انتھک محنت کا نتیجہ تھا 2019 میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کا وفاقی وزارتِ تعلیم سے معاہدہ ہوا ہے، جس کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہوا اور طلبہ کے مسائل حل ہوئے۔
ہم حکومتِ پاکستان اور متعلقہ اداروں کے بے حد شکر گزار ہیں جنہوں نے نہایت سنجیدگی سے ان مسائل کا حل نکالا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں مدارس کا عالمی وقار بلند ہوا اور پاکستان کی مذہبی و تعلیمی حیثیت مزید مستحکم ہوئی۔
الحمدللہ، پہلے جامعہ میں 53 ممالک کے طلبہ پڑھتے تھے اور آج 74 ممالک کے تقریباً 1200 طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں، جو یہاں سے نکل کر نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کررہے بلکہ پاکستان کے غیر رسمی سفیر بن کر وطنِ عزیز کی خدمت بھی کررہے ہیں، بہت سے طلبہ بیرون کی یونیورسٹیز سے جامعہ کی سند پر اسلامی موضوعات پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں، ان غیر ملکی طلبہ کے لیے اب 9-9 سال کے طویل المدتی ویزے جاری کیے جارہے ہیں، اور نئے ویزا قوانین کے تحت طلبہ کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
اسی طرح، جامعہ بنوریہ عالمیہ 20 سال سے یونیورسٹی چارٹر کے لیے کوشاں رہی ہے، اب اس حوالے سے بھی پیش رفت ہورہی ہے اور ان شاء اللہ جنوری 2025 میں یونیورسٹی چارٹر کے اجراء کا امکان ہے، یہ ادارے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل اور ایک بڑی کامیابی ہوگی، جو دینی و عصری تعلیم کے میدان میں مزید ترقی کا سبب بنے گی اور تمام بین الاقوامی تعلیمی اداروں کے ساتھ تعلق مضبوط اور مربوط ہوگا۔
ہمارے یہ تمام مسائل وزارتِ تعلیم سے حل ہوئے ہیں اور ہم اسی رجسٹریشن کے تحت ہی رہنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے معاملات اسی طرح چلتے رہیں، ہمارا روزِ اول سے یہی موقف ہے کہ سب ہمارے لیے قابل احترام و اعتماد ہیں، مدارس اپنی ضروریات کے مطابق وزارتِ تعلیم یا سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرواسکتے ہیں۔
ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ علماء اور اہلِ مدارس کل بھی متحد تھے اور آج بھی متحد ہیں، علماء کے درمیان کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں بلکہ انتظامی اختلافِ رائے ہے، یہ اختلاف رائے سیاسی جماعتوں اور ہر طبقے میں پایا جاتا ہے اور اسے مثبت انداز میں دیکھنا چاہیے اور اس تنوع کو دلوں میں دوریوں کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔
اختلافِ رائے علماء کی روایت اور دینی اصولوں کا حصہ ہے، جیسا کہ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے درمیان اختلاف کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، اسی طرح انتظامی معاملات میں اختلاف رائے کی دورِ نبوی ﷺ میں دور صحابہ سے بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی کریم (ﷺ) غزوۂ احزاب سے واپس تشریف لائے تو آپ (ﷺ) نے ہم سے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ میں پہنچے بغیر عصر کی نماز نہ پڑھے۔ جب راستے میں عصر کا وقت ہوا تو بعض صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے کہا کہ ہم عصر کی نماز اس وقت تک نہیں پڑھیں گے جب تک ہم بنو قریظہ پہنچ نہیں جاتے۔ بعض نے کہا کہ ہم عصر کی نماز پڑھیں گے کیونکہ آپ (ﷺ) نے ہم سے اس کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اس ارشاد سے حضور نبی کریم (ﷺ) کا منشا یہ تھا کہ بنو قریظہ میں جلدی پہنچو۔ دونوں کی رائے مختلف تھی لیکن چونکہ خیر پر مبنی تھیں اس لیے آپ (ﷺ) نے ان میں سے کسی فریق کو ملامت نہیں کیا، بلکہ دونوں کی رائے کو عزت و احترام عطا فرمایا۔
مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے میں انتظامی اختلاف ہے، کچھ مدارس وزارتِ تعلیم کے تحت رہنا چاہتے ہیں اور جب کہ دیگر مدارس سوسائٹی ایکٹ کو بہتر سمجھتے ہیں، دونوں اپنی جگہ درست ہیں اور ان کے اخلاص پر شک نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم، مدارس دشمن عناصراس تنوع کو تنازع بناکر پیش کررہے ہیں، یہ وہی عناصر ہیں جو ماضی میں فرقہ واریت، سیاسی خلفشار، علما اور عوام اور اداروں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے میں ملوث رہے ہیں، ہم ایسے عناصر کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، ہمیں ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنانا ہوگا، جس طرح ہمارے ادارے ایک پیج پر ہیں اسی طرح علماٗ بھی باہم متحد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام علماء کرام اور اہلِ مدارس سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ علماء کے درمیان دوریاں پیدا کرنے والے عناصر کی سازشوں کو ناکام بنائیں اور اتحاد و اتفاق کو فروغ دیں۔ یہ وقت اتحاد اور حکمت عملی سے کام لینے کا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ علماء کرام اس مسئلے کو حکمت اور بصیرت کے ساتھ حل کریں گے تاکہ دینی ادارے مزید مضبوط ہوں اور ہم سب ایک مثبت سمت میں آگے بڑھ سکیں۔
ہمیں اپنے ملک پاکستان کو مستحکم کرنا ہے اور دینی اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ موجودہ دور میں ففتھ جنریشن وار کے ذریعے ہماری ریاست کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اسی طرز پر علماء کے درمیان اختلافات پیدا کیے جا رہے ہیں، لیکن ہم سب ایک صفحے پر اور متحد ہیں۔ اہلِ مدارس کے درمیان دوریاں پیدا کرنے والے عناصر اپنی سازشوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، ان شاء اللہ۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔