سیکنڈ ہینڈ اسموک کا عفریت

بلال ظفر سولنگی

لفظ سیکنڈ ہینڈ ہم عموماً پرانی یا استعمال شدہ اشیاء کے لیے کہتے ہیں، لیکن یہاں ہم ذکر کررہے ہیں سیکنڈ ہینڈ اسموک کا جس سے مراد سگریٹ یا تمباکو کے استعمال سے خارج ہونے والا دھواں جو سگریٹ نوشی کرنے والے شخص کے ساتھ اس کے ارد گرد بیٹھے افراد  کونہ چاہتے ہوئے بھی یکساں متاثر کرتا ہے،  کیونکہ وہ تمام افراد سگریٹ کے دھویں کو سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتے۔

امریکی انوائرمینٹل ایجنسی کے مطابق سگریٹ نوشی کے دھویں کے کسی کمرے یا دفتر میں اثرات کئی گھنٹے تک رہتے ہیں جب کہ دھویں کی بو ختم ہونے کے باوجود تمباکو کے اثرات باقی رہتے ہیں جو تمام افراد اور خاص طور پر حاملہ خواتین اور بچوں کو زیادہ متاثر کرتے ہیں۔

سگریٹ کا دھواں ہر سال پاکستان میں ہزاروں مُردہ بچوں کی ولادت کی وجہ  بھی بن رہا ہے، یہ دعویٰ برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا، یارک یونیورسٹی کی تحقیق کے دوران 30 ترقی پذیر ممالک میں سگریٹ کے دھویں (سیکنڈ ہینڈ اسموک) کے حاملہ خواتین پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ 2008 سے 2013 کے دوران سروے کے ڈیٹا سے لیا گیا، جس کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ہر سال سیکنڈ ہینڈ اسموک صرف پاکستان میں ہی 17 ہزار مردہ بچوں کی ولادت کا باعث بنتی ہے ۔

امریکی ادارہ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول(سی ڈی سی) کے مطابق امریکی سائنس دانوں کی تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ  سیکینڈ ہینڈ اسموک سے بڑی عمر کے افراد کے برعکس بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ سگریٹ میں کئی خطرناک کیمیکل موجود ہوتے ہیں۔

امریکی ادارہ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) کے مطابق سگریٹ میں 6 انتہائی مضر کیمیکل ہوتے ہیں ۔1۔ ہائیڈروجن سائنائٹ جو کیمیکل ہتھیاروں میں استعمال ہوتا ہے، 2۔ کیڈمیم جو بیٹری بنانے میں استعمال ہوتا ہے، 3۔ ٹولوین جو رنگ کے تھنر بنانے میں استعمال ہوتا ہے، 4۔ امونیا جو گھروں میں صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کلینر میں استعمال ہوتا ہے،  5۔ بوٹین جو لائٹر کے فلوئڈ میں استعمال ہوتا ہے،6۔  بینزین جو گیسولین میں پایا جاتا ہے۔

سی ڈی سی کے مطابق بچوں کے زیادہ متاثر ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کے پھیپھڑے اور جسم بڑھ رہے ہوتے ہیں، خاص طور پر وہ بچے جن کو سانس کی بیماری یا استھما لاحق ہو، ان کے لیے سیکنڈ ہینڈ اسموک انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان نے فریم ورک کنونشن آف ٹوباکو کنٹرول کی 2014 میں توثیق کی، اس کنونشن کا آرٹیکل نمبر 8 شہریوں کی تمباکو کے دھویں سے تحفظ سے متعلق اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے ہے ۔

 حکومت پاکستان عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس تاریخی تمباکونوشی کی روک تھام سے متعلق کنونشن پر عمل درآمد اور شہریوں کو تمباکو کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے بیشتر اہم اقدامات کیے جارہے ہیں ، "تمباکونوشی کی ممانعت اور تمباکونوشی نہ کرنے والے افراد کی صحت کا تحفظ آرڈینینس 2002” حکومتی اقدامات کی شروعات تھی جب کہ سیکنڈ ہینڈ اسموک کے اثرات سے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے اور ایف سی ٹی سی کے آرٹیکل 8 پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے وزارت قومی صحت حکومت پاکستان نے جولائی 2009 میں آرڈیننس کے تسلسل میں ایس آر او جاری کیا، جس کے تحت تمام عوامی مقامات بشمول دفاتر، عمارات، صحت کے ادارے، تفریحی مقامات، ریسٹورنٹ، کانفرنس یا سنیما ہال، تعلیمی ادارے، بس اسٹینڈ وغیرہ میں تمباکونوشی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جب کہ اس ایس آر او میں سب سے خاص بات یہ کہ عوام کے کام یا استعمال کی جگہوں پر "تمباکونوشی کے لیے مختص جگہیں” غیر قانونی قرار دے دی گئی ہیں، لہٰذا اب ریسٹورنٹس بشمول دیگر عوامی مقامات میں "اسموکنگ سیکشن” غیر قانونی ہیں۔

کراچی جو ایک گجان آباد اور رقبہ کے لحاظ سے بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، تمباکونوشی کی روک تھام کے قوانین پر شہر بھر میں عمل درآمد کو یقینی بنانا یقینی طور پر ایک چیلنج ہے، کیونکہ شہر کی بڑھتی آبادی کے سبب یہاں عوام بشمول پولیس اور ضلعی انتظامیہ کئی مسائل سے نبرد آزما ہوتی ہے ۔

وزارت قومی صحت حکومت پاکستان کے ماتحت توباکو کنٹرول ڈائریکٹوریٹ ڈاکٹر ثمرہ مظہراور محمد آفتاب کی سربراہی میں نوجوان نسل کی زندگیوں کو تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے گزشتہ کئی سال سے کوشاں ہے، اس ضمن میں 2020 میں کراچی کی ضلعی حکومت کے تعاون سے ضلع شرقی اور ضلع جنوبی میں تمباکو نوشی کی روک تھام سے متعلق قوانین پر عمل درآمد اور دونوں ضلعوں کو ماڈل اسموک فری ڈسٹرکٹ بنانے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا ۔ اس سلسلے میں شہر کراچی میں کمشنر کراچی دفتر کی جانب سے ایڈیشنل کمشنر کراچی ٹو سید جواد مظفر کو تمباکو نوشی کی روک تھام کے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے فوکل پرسن بنایا گیا ہے ۔

ضلع شرقی کے ڈپٹی کمشنر راجہ طارق چانڈیو اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عمیمہ سولنگی ضلع شرقی کو ماڈل اسموک فری ڈسٹرکٹ بنانے کے لیے کوشاں ہیں اورشہریوں خصوصاً نوجوان نسل کی زندگیوں کو تمباکو کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ذاتی دلچسپی بھی لے رہے ہیں، جس کے سبب ضلع شرقی میں کئی سرکاری دفاتر بشمول لائبریریوں کو اسموک فری قرار دیا جاچکا ہے ۔

ضلع شرقی میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ٹو عمیمہ سولنگی کی سربراہی میں توباکو کنٹرول سیل کے نوٹیفیکیشن کا اجراء بھی کیا جا چکا ہے جس کے بعد ضلعی انتظامیہ تمباکو نوشی کی روک تھام کے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے متحرک نظر آتی ہے ، ضلع شرقی میں تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز بشمول تمام ادارے ضلعی انتظامیہ کو اس ضمن میں مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں، ان ٹھوس اقدامات کی بدولت سیکنڈ ہینڈ اسموک سے شہریوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے امید کی کرن نظرآتی ہے۔

اس سلسلے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عمیمہ سولنگی کا کہنا تھا کہ ہمیں تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے آنے والی نسلوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنا ہے اور اس کا سب سے اچھا طریقہ نوجوانوں خصوصاً طلباء کوصحت مندانہ سرگرمیوں مثلاً مختلف کھیلوں اور غیر نصابی سرگرمیوں میں مشغول رکھنا ہے تاکہ وہ تمباکونوشی سمیت دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال سے دور رہ سکیں، جبکہ انہوں نے آگاہ کیا کہ اس ضمن میں صلعی شرقی کی انتظامیہ متحرک کردار ادا کر رہی ہے اور گزشتہ سال سے لے کر اب تک مختلف صحتمندانہ سرگرمیوں کا انعقاد کیا جا چکا ہے جس میں پوسٹر کامپیٹیشن ، سائیکلنگ و دیگر سرگرمیاں شامل ہیں۔

اس تحریر کے ذریعے میری تمام والدین سے گزارش ہے کہ تمباکو نوشی کو ترک کرکے اپنے بچوں کے لیے ایک مثبت مثال قائم کریں، آپ کے طرز عمل کا آپ کے بچوں پر گہرا اثر پڑتا ہےاوراپنے بچوں کو آگاہ کریں کہ تمباکو نوشی صحت اور ماحول کے لیے مضر ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔