سائنس دانوں کی پُراسرار خلائی دھات بنانے میں کامیابی

کیمبرج: محققین اس وقت زمین پر ایک ایسا خلائی مقناطیس بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں، جو قابلِ تجدید ٹیکنالوجی میں مغرب کا چین پر انحصار ختم کرسکتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے محققین ٹیٹرٹائنائٹ کو ایک خلائی مقناطیس کہتے ہیں جو توانائی کو صاف کرنے والی ٹیکنالوجی میں انقلاب لاسکتا ہے۔ مقناطیس فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اہم سمجھی جانے والی برقی گاڑیوں، پون چکیوں اور دیگر اختراعات کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اس وقت استعمال ہونے والی زیادہ تر ٹیکنالوجی میں وہ مقناطیس استعمال ہوتے ہیں جو عام طور پر نایاب زمینی عناصر سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ عناصر زمین کی نچلی پرت پر پھیلے ہوتے ہیں اور ان کو اکٹھا کرنا مشکل ہوتا ہے، جس کے لیے انتہائی سخت نوعیت اور مہنگی کان کنی کی ضرورت ہوتی ہے۔
امریکی محکمہ توانائی کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق چین قریباً 58 فیصد نایاب زمینی کان کنی اور 92 فیصد مقناطیس کی پیداوار پر کنٹرول رکھتا ہے جب کہ امریکا عالمی سپلائی میں قریباً 15 فیصد کا شراکت دار ہے۔
کیمبرج کے ایک پروفیسر لنزے گریئر کا رپورٹ میں کہنا تھا کہ ماحولیاتی اثرات اور چین پر بھاری انحصار کے درمیان ایسے متبادل میٹریل کی تلاش کی فوری ضرورت ہے، جن کے لیے نایاب عناصر کی ضرورت نہ ہو۔
فولاد اور نِکل کی مخلوط دھات سے بنا ٹیٹراٹائنائٹ وہ جادوئی مقناطیس ہوسکتا ہے جو کئی مسائل کو حل کردے، لیکن یہ میٹریل شہابیوں پر لاکھوں سال کے عرصے میں تشکیل پاتا ہے اور سائنس دانوں کے پاس اتنی جدید ٹیکنالوجی نہیں کہ ان کو اکٹھا کیا جاسکے۔
یونیورسٹی رپورٹ کے مطابق سائنس دان تجربہ گاہ میں ٹیٹراٹائنائٹ بنانے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے پیشِ نظر اس مرکب میں فاسفورس کا اضافہ ایک اہم کامیابی ہے۔
فاسفورس فولاد اور نِکل کے ساتھ ردِعمل کرتے ہوئے ایک درست جوہری حرکت پیدا کرتا ہے، جس سے خلا میں لاکھوں سال کا عرصہ لگے بغیر یہ دھات ٹیٹراٹائنائٹ مقناطیس کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق انہوں نے مرکب کو سانچے میں ڈھال کر کچھ ہی سیکنڈوں میں کامیابی کے ساتھ ٹیٹرانائٹ بنالیا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔