لہو کا رنگ ایک ہے

دنیا بھر میں تمام اقوام خود کو برتر اور دیگر کو کم تر سمجھتی ہیں۔ کہیں رنگ کی بنیاد پر، کہیں نسل کی بنیاد پر، تو کہیں زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کم تر سمجھنے کا سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ اس آگ نے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک تک کو نہیں بخشا۔ دنیا کے امیر ترین اور سپر پاور کہلانے والے ممالک امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک بھی اس آگ میں جل رہے ہیں۔

امریکا جیسے ترقی یافتہ اور طاقتور ملک میں آج بھی سیاہ فام افراد کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور وہاں گزشتہ چند ماہ کے دوران سفید فام پولیس افسران کے ہاتھوں سیاہ فام امریکی نوجوانوں کی قتل کے باعث نسلی فسادات جاری رہے۔ ان فسادات میں متعدد افراد زخمی ہوئے، متعدد کو گرفتار کیا گیا، سیاہ فام امریکی شہریوں کے احتجاج نے دنیا کو بتا دیا کہ سپر پاور امریکا بھی انسانی تفریق کے گھناونے عمل میں قبل از اسلام عربوں سے بھی گیا گزرا ملک ہے۔

یہ 1948 کا بڑا معروف واقعہ ہے کہ ایک سیاہ فام امریکی خاتون مسافر دن بھر کام کے بعد گھر واپس جانے کے لیے تھکی ہاری ایک بس میں سوار ہوئی۔ اس وقت امریکی قانون کے مطابق اگر بس میں کوئی سفید فام داخل ہو اور بیٹھنے کے لیے اسے سیٹ نہ ملے تو پہلے سے بیٹھے ہوئے سیاہ فام شہری کو اٹھ کر اس کے لیے سیٹ خالی کرنا پڑتی تھی۔ خاتون کا نام روزا پارک تھا۔ روزا پارک اس قدر تھکی ہوئی تھی کہ اس نے بس میں داخل ہونے واے قبل ہی یہ مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ اگر درمیان میں کوئی سفید فام شہری بس میں داخل ہوا تو وہ اس کے لیے سیٹ خالی نہیں کرے گی۔ اور یہی ہوا۔ ایک اسٹاپ سے ایک سفید فام امریکی بس میں سوار ہوا۔ کوئی سیٹ خالی نہیں تھی اور وہ بس میں سوار واحد سیاہ فام تھی۔ کنڈکٹر نے اسے اٹھنے کا اشادہ کیا۔ لیکن روزا پارک نے اٹھنے سے انکار کردیا۔ اس انکار کے باعث اسے بس سے اتار کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے کے خلاف امریکا بھر میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور ملک گیر مظاہرے شروع ہوئے۔ یہی وہ واقعہ تھا جو مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں امریکی سیاہ فام شہریوں کو برابری کے حقوق دلانے کا سبب بنا۔

اسی طرح برطانیہ کا ماضی بھی بتاتا ہے کہ وہاں بھی ایشیائی باشندوں کو دوسرے درجے کا شہری مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں کی تاریخ سفید فام برطانویوں کی جانب سے ایشیائی باشندوں کے خلاف احتجاج اور انہیں ملک سے نکالنے کے مطالبات سے بھری پڑی ہے، جو برطانیہ کے ماتھے پر کلنک کا داغ ہے۔

اگر ان واقعات اور ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ اور حال پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں یاد آتا ہے، رسول عربی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع، جس میں انہوں نے فرمیایا، "آج کے دن دین مکمل ہوگیا۔ میں تمہارے درمیان ایک کتاب (قرآن) چھوڑ کر جارہا ہوں، جو رہتی دنیا تک تمہاری رہنمائی کرے گی۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، ماسوائے تقویٰ کے۔” یہ بات حضور اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں عملی طور پر بھی ثابت کردی تھی کہ ان کی نظر میں سیاہ سفید، عرب و عجم اور قبائلی تفریق کوئی حیثیت نہیں۔ اسلام کی آمد پر حضور اکرم ﷺ نے مومنین کا جو پہلا گروہ قائم کیا، وہ ان گروہوں میں سے ایک تھا، جس نے ساتویں صدی میں عرب قبائل کی صدیوں پرانی روایات کو توڑ دیا تھا۔ حضور اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں حضرت سلمان بھی تھے، جو فارس سے تھے اور قبول اسلام سے قبل آتش پرست تھے، حضرت صہیب رومی تھے، جو یونانی بازنطینی خطے سے تعلق رکھتے تھے، وہ سفید فام تھے اور ان کے بال سنہرے تھے۔ ان صحابہ کرام میں حضرت بلال بھی تھے، جن کا تعلق حبشہ (ایتھوپیا( سے تھا۔ سیاہ فام بلال حبشی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلامی سے آزاد کرایا تھا اور وہ اسلام کے اولین موذن سمجھے جاتے ہیں۔

پیغمبرِ اسلام ﷺ نے ان تمام صحابہ کرام اور ایمان لانے والی صحابیات رضوان اللہ علیہم کو اسلام کی ایک لڑی میں پرو دیا تھا اور ان میں بھائی چارہ قائم کردیا تھا اور کیا عربی اور کیا عجمی، تمام قبائل سے تعلق رکھنے والوں، غریبوں ور امیروں، سیاہ فام و سفید فام، خانہ بدوش اور امراء، غلام اور آزاد، یہاں تک کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودی بھی نئے اسلامی معاشرے میں برابر کے شہری تھے۔

یہی وہ خصوصیات ہیں، جنہیں آج ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں نسلی تعصب نے دنیا بھر میں آگ لگا رکھی ہے، اگر ہم مسلم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں اور ان سے سبق حاصل کریں تو امید کی جاسکتی ہے کہ آج بھی معاشرے کے افراد میں آپس کی محبت دوبارہ قائم کی جاسکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اسوہ حسنہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اور حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے آخری خطے کے مطابق آپس میں کوئی تفریق روا نہ رکھیں اور آپس میں اسی طرح مل جل کر رہیں، جس طرح نبی کریم ﷺ نے رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اگر ہم آپ ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کریں تو دنیا سے نسلی، لسانی، مذبہی، علاقائی اور کسی بھی قسم کی عصبیت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔