معاشرے کے قابل فخر کردار
آپ شہر قائد کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، خاص طور پر جب آپ مارکیٹ جاتے ہیں تو گداگر بڑی تعداد میں آپ کے پیچھے پڑ جاتے اور بھیک طلب کرتے ہیں، لگ بھگ پورا شہر ان کی لپیٹ میں ہے اور ان سے جان چھڑانا ازحد دُشوار ہوجاتا ہے۔ ان میں سے اکثر بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں، بس مفت کی روٹیاں توڑنے کی عادت انہیں بھیک مانگنے پر مُصر رکھتی ہے۔ معاشرے میں ایسے لوگوں کو کسی طور اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
ایسے میں ایسے لوگ بھی معاشرے میں جابجا دکھائی دیتے ہیں، جو معذور ہونے کے باوجود کڑی محنت کرکے رزق حلال کمارہے ہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ ہمارے معاشرے کا جھومر اور ہر طرح سے لائق عزت و احترام ہیں۔
پچھلے دنوں کسی اچھی کتاب کی تلاش صدر لے گئی، وہاں ایسے ہی ایک معاشرے کے قابل فخر کردار سے خوش گوار ملاقات ہوئی، عزم و حوصلے کی مثال نوجوان نے معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا، وہ صدر بازار میں کتابیں بیچ کر اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال رہا ہے۔
صدر کی مشہور پشاوری آئسکریم شاپ کے ساتھ ہی یہ بندہ کتابوں کا اسٹال لگاتا ہے اور نہایت سستے داموں میں کتابیں فروخت کرتا ہے۔
بظاہر یہ معذور ہے، ہاتھوں سے محروم ہے مگر اس کی جذبے جوان ہیں، اس کے حوصلے بلند ہیں۔ اس نے مجھے انتہائی سستے داموں کتابیں بھی دیں اور ساتھ کہتا ہے کہ صاحب اللہ کا شکر ہے مالک دو وقت کی روٹی کھلا دیتا ہے بھوکا نہیں سلاتا۔
نہ اس کی آنکھوں میں گاہک کو لوٹنے کی لالچ تھی اور نہ اس کی باتوں میں چالاکی۔ سادہ طبیعت اور اپنے کام سے بھرپور ایمان داری۔ اگر آپ کراچی کے رہائشی ہیں اور آپ کا جب بھی صدر سے گزرنا ہو تو اس آدمی سے ایک دو کتابیں ضرور خرید لینا۔ ہمارے لیے ایک دو کتاب کی قیمت بہت زیادہ نہ ہوں لیکن اس کے لیے شاید وہ قیمت دو وقت کی روٹی کا ذریعہ بن جائے۔
محنت کرنے والوں اور حلال کمانے والوں کو ہمیشہ سپورٹ کریں، بڑا سکون ملتا ہے۔ ۔ ۔ آزما کر دیکھ لیں۔