مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

زاہد حسین

اپنی وفات کے 52 برس بعد بھی مصطفیٰ زیدی اپنے مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ قارئین کے لیے اُن کی ایک غزل پیش خدمت ہے۔
فن کار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
اترا تھا جس پہ باب حیا کا ورق ورق
بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی
میں ایک اعتبار سے آتش پرست تھا
وہ سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی
وہ نازش ستارہ و طنار ماہتاب
گردش کے وقت میرے گہن کی شریک تھی
وہ ہم جلیس سانحۂ رحمت نشاط
آسائش صلیب و رسن کی شریک تھی
ناقابل بیان اندھیروں کے باوجود
میری دعائے صبح وطن کی شریک تھی
سید مصطفیٰ حسین زیدی کی پیدائش 12 اکتوبر1930 کو ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی، ان کے والد سید لخت حسین زیدی سی آئی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر تھے۔ مصطفیٰ زیدی بے حد ذہین طالب علم تھے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے انہوں نے گریجویشن کیا تھا اور صرف 19سال کی عمر میں ان کا شعری مجموعہ ”موج مری صدف صدف“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا، جس کا دیباچہ فراق گورکھپوری نے لکھا تھا اور فراق صاحب نے ان کی شکل میں ایک بڑے شاعر کی پیش گوئی کی تھی۔ کسی حد تک تو یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی لیکن بے وقت موت نے ان کا شعری سفر اچانک ختم کردیا۔ 40 سال کی زندگی میں ان کے 6 مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی کلیات، کلیاتِ مصطفیٰ زیدی کے عنوان سے شائع ہوئیں۔
مصطفیٰ زیدی 1951 میں کراچی چلے گئے تھے۔ کچھ دن وہ اسلامیہ کالج پشاور میں بطور استاد تعینات رہے۔ وہاں سے نکالے گئے۔ پھر انہوں نے سی ایس پی کا امتحان دیا جس میں کامیابی حاصل کی اور اہم عہدوں پر کام کیا۔

فیض احمد فیض کے ساتھ یادگار تصویر

جس دن سے اپنا طرزِ فقیرانہ چھٹ گیا
شاہی تو مل گئی دلِ شاہانہ چھٹ گیا
مصطفیٰ زیدی کو جس درد و کرب سے گزرنا پڑا اس کی بازگشت ان کی غزلوں کے اشعار میں سنائی دیتی ہے۔ خاص طور پر ان کی مشہور غزل میں تو یہ کرب بار بار اتر آتا ہے:
کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے
غمِ دل مرے رفیقو غمِ رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی ہم زباں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو مہرباں نہیں ہے
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے
کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

زیدی کے وہ معاشقے جو بدنامی کی حد تک مشہور ہوئے:
سروج بالا سرن (آلہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شنکر سرن کی بیٹی)۔
سرلا کپور (کرسچن کالج الٰہ آباد کی ہم جماعت طالبہ)۔
پریم کمار جین (کرسچن کالج الٰہ آباد میں ہم جماعت خوبرو لڑکا جس کے نام مجموعہ روشنی معنون ہے)۔
مس اسمتھ (شعبہ جغرافیہ، پشاور یونیورسٹی کی استانی)، جس کے ساتھ پیش دستی پر ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔
ویرا فان (جرمن دوشیزہ جس سے شادی کی)۔
دختر صادق (مسعود اشعر کے نام خط میں زیدی نے اس کا ذکر کیا ہے)۔
شہناز گل (گوجرانوالا کے کشمیری خاندان سے تعلق رکھنے والی اور کراچی جمخانہ کے ممبر سلیم کی بیوی)۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔