زرداری کی تجویز کے نواز سمیت اکثر اپوزیشن رہنما مخالف!

اسلام آباد: سابق صدر آصف علی زرداری نے جب پی ڈی ایم کے ورچوئل اجلاس میں کہا کہ، ’میں نے پرویز مشرف کو اقتدار سے نکالا اور اختیارات صدر سے لے کر پارلیمنٹ کو دیے، ’انکی‘ مخالفت کے باوجود اٹھارہویں ترمیم منظور کروائی، میرے خیال میں اب ہمیں مرکز میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا چاہیے، میں اس سلسلے میں جوڑ توڑ کرسکتا ہوں‘۔
زرداری نے جمعرات کو پی ڈی ایم اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے یہ باتیں کیں تو اجلاس کی صدارت کرتے مولانا فضل الرحمٰن سمیت اکثر شرکا کے چہروں پر مایوسی کے بادل چھاگئے۔
ویڈیولنک پر نظر آتے نواز شریف کا چہرہ بھی اتر گیا۔ اجلاس میں مریم نواز، بلاول بھٹو سمیت دو سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور دیگر جماعتوں کے سرکردہ رہنما شریک تھے۔
آصف زرداری کی گفتگو پر ردعمل میں مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی بولے، اگر ہم لانگ مارچ کی تاریخ بھی نہ دے سکے اور ماضی کے ناکام تجربے کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے جارہے ہیں تو پھر ہمیں اس حکومت کے خلاف تحریک پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لینا چاہیے۔
نواز شریف نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں بولے، تحریک عدم اعتماد میں کم اعداد ہوں یا اس تحریک کی حمایت اسٹیبلشمنٹ کرے مجھے دونوں قبول نہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے سینیٹ انتخابات، قومی و صوبائی اسمبلیوں سمیت کسی میں کوئی دلچسپی نہیں، میں تو سمجھتا ہوں ہمیں سب فورمز سے استعفیٰ دینا چاہیے، تاہم میرے کچھ لوگوں کے خیال میں ہمیں سینیٹ الیکشن میں حصہ لینا چاہیے، اس لیے میں راضی ہوا ہوں۔ حیران کن طور پر عوامی نیشنل پارٹی کے سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے بھی اجلاس میں آصف علی زرداری کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کی۔
جمعیت علمائے پاکستان کے شاہ اویس نورانی نے بھی خوب گرہ لگائی، پیپلز پارٹی کا نام لیے بغیر بولے کہ جن لوگوں کو گلگت بلتستان کے انتخابات میں آس لگوائی گئی تھی ان کا کیا بنا؟
آخر میں انہیں ناشتے کے لیے دو ابلے ہوئے انڈے بھی نہ ملے۔ اپوزیشن اجلاس میں کسی نے کچھ کہا تو نہیں مگر کم و بیش تمام جماعتیں پیپلزپارٹی کو شک کی نظر سے دیکھتی رہیں۔ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں تین باتیں طے ہوگئیں۔
اول: اپوزیشن جماعتیں مل کر سینیٹ انتخابات میں حصہ لیں گی لہذا سینیٹ کی حد تک کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا۔ اعداد و شمار کی روشنی میں فی الحال حکمران جماعت تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں باقی جماعتوں پر عددی اکثریت حاصل ہوجائے گی لہٰذا حکومت کو سینیٹ میں قانون سازی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔
دوم: اپوزیشن جماعتیں 26 مارچ کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں گی مگر وہ اس بات پر کنفیوژ ہیں کہ انہیں دارالحکومت میں دھرنا دینا چاہیے بھی یا نہیں۔
سوم: اپوزیشن جماعتیں ابھی تک یہ بنیادی فیصلہ کرنے سے گریزاں ہیں کہ ان کا اصل ہدف کون ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔