پاکستان اور چین، بہترین دوست
پاکستان اور چین 7 دہائیوں سے بہترین دوست ہیں۔ اس دوستی کی 71 سال پرانی تاریخ ہے، تب سے لے کر اب تک دونوں ممالک ہر اچھے برے وقت میں ایک ساتھ کھڑے ہیں اور اپنی اس گہری دوستی کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔ 1956 میں اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے اپنے دورۂ چین کے دوران کہا تھا کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے بلند، سمندر سے زیادہ گہری، شہد سے زیادہ میٹھی اور فولاد سے زیادہ سخت ہے۔ چین کے پہلے وزیراعظم چواین لائی نے کہا کہ آل ویدر اسٹرٹیجک کوآپریٹو پارٹنرشپ ایک تناور درخت بن گئی ہے جس کی جڑیں دونوں ممالک کے عوام کے دلوں میں موجود ہیں۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو آہنی بھائی قرار دیا۔
چین نے پاکستان کے ساتھ احترام اور خلوص کا سلوک کیا ہے، اس کی آزادی، خودمختاری، علاقائی سالمیت اور قومی وقار کو برقرار رکھنے میں پاکستان کی بھرپور حمایت کی ہے اور اقتصادی و سماجی ترقی کے حصول کے لیے اسے مخلصانہ اور بے لوث مدد فراہم کی ہے۔ جب جب پاکستان کی قومی سلامتی اور وقار کو کوئی خطرہ لاحق ہوا، چین نے پاکستان کی مشکلات پر قابو پانے میں مدد کی اور ہمیشہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ چین کے اس دوستانہ طرزِ عمل نے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی بہت مضبوط رہی اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین اور پاکستان کے درمیان جامع تعاون پر مبنی شراکت داری میں مزید ترقی ہوئی ہے۔ دونوں ممالک نے متواتر اعلیٰ سطح کے رابطوں کو برقرار رکھا ہے اور سیاسی باہمی اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ چینی وزیراعظم لی کی چیانگ کے دورۂ پاکستان کے دوران مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔ اس بیان میں دونوں ممالک نے سیاست، معیشت اور تجارت، کنیکٹیویٹی، میری ٹائم، ایرو اسپیس، ہیومینٹیز، دفاع اور سیکیورٹی کے شعبوں میں اسٹرٹیجک تعاون کو مزید گہرا کرنے کا عہد کیا۔ بین الاقوامی اور علاقائی تعاون کو بھی بہتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشترکہ بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ دونوں ممالک کو مشترکہ طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے لیے مکمل مشاورت کی بنیاد پر غور کرنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان رابطے اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لیے طویل مدتی منصوبہ تیار کرنا چاہیے۔
پاک چین تعلقات کے تین کلیدی الفاظ ہیں:
پہلا کلیدی لفظ "All weathers”۔
71 سال قبل سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے پاک چین دوستی ہمیشہ غیر متزلزل رہی ہے اور وقت کی آزمائش، بین الاقوامی حالات اور دونوں ممالک کی ملکی صورت حال میں ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود قائم رہی ہے اور وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوتی گئی ہے۔۔ اپریل 2015 میں چینی صدر شی جن پنگ نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا۔ چینی اور پاکستانی دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو ہر موسم کی تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری تک لے جانے پر اتفاق کیا۔ چین کے خارجہ تعلقات میں یہ ایک منفرد مثال ہے۔
دوسرا کلیدی لفظ "All round”
چینی صدر شی جن پنگ کے دورۂ پاکستان کے بعد کے برسوں میں دونوں ممالک نے واضح طور پر دوطرفہ تعاون کے مینڈیٹ کو نافذ کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ ہم نے سیاسی، تجارت اور سرمایہ کاری، ثقافت اور تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، سلامتی اور دفاع کے ساتھ بین الاقوامی اور علاقائی امور میں تبادلوں اور تعاون کو جامع طور پر فروغ دیا ہے۔ مشترکہ کوششوں سے اس دورے کے زیادہ تر نتائج سامنے آچکے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی وسعت اور گہرائی بڑھ رہی ہے۔
تیسرا کلیدی لفظ "Iron brothers”
یہ عام لوگوں کے درمیان مخلص اور قریبی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی رکنیت کے حصول میں چین کو قابل قدر مدد فراہم کی ہے۔ اسی طرح چین نے ہمیشہ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور قومی وقار کی حمایت کی ہے اور معاشی اور سماجی ترقی کے حصول کے لیے پاکستان کی مخلصانہ حمایت کی ہے۔
دیے گئے حقائق کی روشنی میں چینی اور پاکستانی عوام کو دوطرفہ دوستی اور اچھے تعلقات کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہیے۔
چینی حکومت صنعت کار اور دیگر سرمایہ کار پاکستان کی معیشت کو فروغ دے رہے ہیں۔
2015 میں سی پیک کے ذریعے کئی ارب ڈالرز کا وعدہ کیا گیا تھا جس کا مقصد پاکستان کے ٹوٹتے ہوئے انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور اس کی جنوبی بندرگاہ گوادر کو مغربی چین سے جوڑنا تھا۔
یہ پروجیکٹ چینی صدر شی جن پنگ کے دستخط سے بننے والے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا اہم حصہ ہے۔ اس کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کا تخمینہ کل 46 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔
چین اور پاکستان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو اقتصادی ترقی اور آزاد تجارت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایک بڑے منصوبے کے طور پر شروع کیا ہے۔ سی پیک ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور پالیسی ساز اور حکومتی اہل کار سی پیک کو دونوں ممالک کے لیے ایک گیم چینجر کا درجہ دیتے ہیں، کیونکہ ممکنہ طور پر یہ مقامی شہریوں کے ساتھ بین الاقوامی رسائی کے لیے کاروبار اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا کرے گا۔ حال ہی میں کی جانے والی عمیق تحقیق نے سی پیک کے میکرو اور مائیکرو لیول دونوں فوائد پر بحث کی ہے، لیکن اس کی ابھرتی ہوئی اصطلاح کی وجہ سے صرف نظریاتی طور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
ہم نے آج اس بات پر بحث کی ہے کہ سی پیک دونوں ممالک کی مقامی کمیونٹی کے لیے کتنا فائدہ مند ہے، اور اسے مقامی لوگ کس طرح سمجھتے ہیں۔ یہ تحقیق اس سلسلے میں موجود خلا کو پُر کرتی ہے اور سی پیک کے ممکنہ فوائد کا جائزہ لیتی ہے۔ ان تمام معلومات کی غرض سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ایک مخلوط طریقہ اختیار کیا گیا، جیسا کہ تیار کردہ سوال نامے کے ذریعے کُل 445 شہریوں سے ان کی رائے لی گئی۔ ان شہریوں میں 323 مرد اور 122 خواتین شامل تھیں، اس کے علاوہ 32 ایسے شہریوں (جن میں 28 مرد اور 4 خواتین شامل تھیں) سے روبرو انٹرویو بھی کیے گئے جو سی پیک روٹ سے ملحق علاقوں میں آباد ہیں۔ نتائج سے پتا چلا کہ مقامی شہری سی پیک کی ترقی کے باعث اپنی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ یہ شہری اپنی زندگی میں روزگار کے بہتر مواقع اورغربت میں کمی کے علاوہ ماحولیاتی تحفظ اور معیارِ تعلیم سے متعلق غیر معمولی بہتری محسوس کرتے ہیں۔ یہ سروے پالیسی سازوں کو نئے تعلیمی ادارے بنانے، سرمایہ کاروں کو صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے اور سی پیک کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے ماحولیاتی حکمتِ عملی تیار کرنے اور ساتھ ہی حکومتی افراد اور پالیسی سازوں کو سی پیک کے پروجیکٹس اور ان کی افادیت سے متعلق عوامی حمایت حاصل کرنے پر بھی زور دیتا ہے۔ سی پیک کے پہلے مرحلے میں درجنوں پروجیکٹس مکمل کیے گئے ہیں، جن میں توانائی اور ٹرانسپورٹ انفرا اسٹرکچر اہم ہیں۔
اس بڑے منصوبے کا دوسرا مرحلہ گزشتہ سال دسمبر میں شروع ہوا، جس میں 27 منصوبے شامل تھے۔ اس قدم کا فوکس مینوفیکچرنگ کو فروغ دینا اور نئی ملازمتیں پیدا کرنا تھا۔
سی پیک کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اس نے پاکستان میں اپنے 10 پاور پروجیکٹس مکمل کرلیے ہیں، جن میں 4 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کی گنجائش ہے۔ ان 10 منصوبوں کی تفصیل یہ ہے:
1- ساہیوال کول فائرڈ پاور پلانٹ 1320 میگاواٹ
2- پورٹ قاسم کول فائرڈ پاور پلانٹ 1320 میگاواٹ
3- چائنا حب کول واٹر پروجیکٹ (حب بلوچستان) 1320 میگاواٹ
4- اینگرو تھرکول پاور پروجیکٹ 660 میگاواٹ
5- قائدِاعظم سولر پارک بہاولپور 1000 میگاواٹ
6- ہائیڈرو چائنا ووڈ ونڈ فارم گھارو ٹھٹھہ 50 میگاواٹ
7- یو ای پی ونڈ فارم جھمپیر ٹھٹھہ 100 میگاواٹ
8- سچل ونڈ فارم جھمپیر ٹھٹھہ 50 میگاواٹ
9- تھری گورجز سیکنڈ اور تھرڈ پاور پروجیکٹ 100 میگاواٹ
10- مٹیاری سے لاہور 660 کلوواٹ
3 ہزار 8 سو 70 میگاواٹ کی پیداواری گنجائش کے حامل مزید 6 پاور پروجیکٹس کے قیام کا کام بھی جاری ہے، جس پر جلد کام مکمل کرلیا جائے گا۔
تعلیم کے شعبے میں چین پاکستان تعاون
پاکستان اور چین کے تعاون سے ناصرف معیشت میں بہت ترقی ہوئی ہے بلکہ تعلیم کے شعبے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان گہرا تعاون ہے۔ پاکستان اور چین پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کے قیام کے ساتھ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے میں بھی تعاون کررہے ہیں۔ اسلام آباد میں تعینات چینی سفیر کے مطابق صرف بلوچستان میں 50 کے قریب پیشہ ورانہ ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ بلوچستان کے طلبہ کو چین میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظائف بھی دیے گئے ہیں۔
چین اور پاکستان کے درمیان یہ معاہدے صرف بلوچستان تک محدود نہیں۔ آج قریباً 28,000 پاکستانی طلبہ چینی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے رہے ہیں، جو چینی یونیورسٹیوں میں جنوبی کوریا کے (50,600 طلبہ) اور تھائی (28,603 طلباء) کے بعد تیسرا بڑا دستہ ہے۔
اسی طرح پاکستانی تعلیم میں چینی زبان سیکھنے کا عمل بڑھ رہا ہے۔ چینی زبان کی کلاسیں صرف کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ تک محدود نہیں، بہت سے دوسرے ادارے مینڈارن کلاسز پیش کرتے ہیں۔ 2018 میں، قریباً 25,000 پاکستانی مینڈارن کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اس تعداد میں اضافہ متوقع ہے کیونکہ چینی سرمایہ کار ملک میں اپنے منصوبوں کو بڑھارہے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، فروری 2018 میں، پاکستانی سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں CPEC سے متعلقہ منصوبوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو چینی زبان سیکھنے کی ترغیب دی گئی۔
پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کو مسلسل کمزور کیا جارہا ہے۔
بلوچستان زمینی لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں گوادر بندرگاہ تزویراتی طور پر واقع ہے۔ صوبے نے گزشتہ 17 سال میں متعدد دہشت گرد حملے دیکھے ہیں، جن میں سے کچھ حملے چینی باشندوں کے خلاف تھے۔ بلوچ باغی اور انتہاپسند گروپ پاکستانی ریاست کے خلاف لڑرہے ہیں۔ انہوں نے پولیس اور فوج کو نشانہ بنانے سمیت اکثر غیر بلوچوں کے ساتھ بلوچ مخالفین پر بھی حملے کیے ہیں۔
اگرچہ یہ خطہ سرمایہ کاری کے لیے پُرخطر سمجھا جاتا ہے، لیکن چینیوں کو اب تک صوبے میں رقوم جمع کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوئی ہے۔ چینی انجینئر گوادر میں ایک ہوائی اڈا تعمیر کررہے ہیں، اس کے ساتھ کئی دوسرے بڑے پروجیکٹس بھی زیرِ تکمیل ہیں۔
اب پاکستان کو بلوچ قوم پرست اور بنیاد پرست انتہاپسند گروپوں سے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی چینی کارکنوں کو نشانہ بنانے والے حملوں کی تعداد خاص طور پر مغربی صوبے بلوچستان میں بڑھ رہی ہے۔ اپریل کے آخر میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک 30 سالہ خاتون کو حکم دیا، جس کی شناخت شاری بلوچ کے نام سے کی گئی تھی، اس خاتون نے کراچی یونیورسٹی میں چینی زبان اور ثقافت کے مرکز کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر خودکُش بم حملہ کیا، جس میں تین چینی اساتذہ ہلاک اور پاکستانی ڈرائیور زخمی ہوگیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی ایل اے جیسا فعل غیر انسانی اور ناقابل معافی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان تعاون فائدہ مند ہے۔ اس سے پاکستان کی ترقی میں کافی حد تک مدد ملے گی اور پاکستانی عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستانی اور چینی عوام کو ہمیشہ تعاون کی حمایت کرنی چاہیے۔