نبن خان لوند، جس نے چینی انجنیئرز کا تاوان قومی خزانے سے وصول کیا

عاجز جمالی

وہ نا تو قبائلی سردار تھا اور نہ کوئی سیاست دان۔ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا، نا ہی پڑھے لکھے لوگوں سے دوستیوں کا قائل تھا۔ اس کی دوستیاں پولیس والوں سے تھیں یا پھر چھوٹے موٹے ڈاکووں سے۔

سندھ کے مشہور فنکار جلال چانڈیو سے بھی اس کی دوستی تھی۔ سندھ میں اس زمانے میں جلال چانڈیو ہی نہیں چانڈیو قبیلے کے ڈاکو بھی مشہور تھے۔ پہلے پریل عرف پروچانڈیو، پھر اس کا بھائی علی گوہر چانڈیو، اور اس کے بعد لائق چانڈیو۔ کہتے ہیں کہ ڈاکو لائق چانڈیو اور اس دور کے دیگر ڈاکوؤں سے نبن خان لوند کی دوستی تھی۔ سندھ میں کئی بڑے سردار اور وڈیرے پتھاریدا بھی ہوتے ہیں۔ پتھاریدا کا مطلب ہے کہ ان کو اپنے پاس ٹھہرانا یا سہولت کاری کرنا۔ یہی کام نبی بخش عرف نبن خان لوند بھی کرتا تھا لیکن اس کے تعلقات دیگر بڑے اور با اثر لوگوں سے بھی ہوں گے تبھی وہ اس دور کی سب سے بڑی طاقت ور سیاسی شخصیت اور پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو تک بھی پہنچ گیا تھا۔ 1988 کے عام انتخابات میں تحصیل جوہی کے حلقے سے نبن خان لوند کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ بھی مل گیا اور وہ سندھ اسمبلی کا رکن منتخب ہوگیا۔ اس طرح نبن خان لوند دھوم دھام سے اقتداری سیاست میں وارد ہوا۔

پیپلز پارٹی کی نومنتخب مذکورہ حکومت نے بیس ماہ ہی مکمل کیے تھے کہ حکومت چلی گئی۔ آئی جے آئی کی حکومت بن گئی اور میاں نواز شریف وزیر وزیر اعظم بن گئے۔ سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی اور چھہ حروں کے قتل کے الزام میں ملوث جان صادق علی کو بیرون ممالک سے بلا کر وزیر اعلی سندھ بنایا گیا۔ تاریخی بات ہے کہ سانگھڑ میں حروں کے قتل کی وجہ سے بھٹو اور پیر پگارا کے درمیاں تنازعہ بڑھا، اسی تنازعہ کے اہم کردار جام صادق علی پھر پیر پگارا کے آشیر باد سے ہی سندھ کے وزیر اعلی بن گئے۔ جام صادق علی کو سندھ کا طاقت ور وزیر اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی زمانے کے صدر مملکت غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت جام صادق علی کابینہ کے مشیر داخلہ تھے۔

گیارہ مئی 1991 کو ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے حکومت کے ساتھ ساتھ پوری ریاستی مشینری کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ صبح صبح انڈس ہائی وے پر بھان سعید آباد کے قریب ڈاکووں نے تین چینی انجنیئروں کو اغوا کرلیا۔ چینی انجنیئرز پاک چین اشتراک سے جامشورو سے گڈو ( کشمور ) تک واپڈا کے ہائی ٹرانسمیشن لائن پر کام کر رہے تھے۔ ڈاکووں نے چینی انجنیئروں کو اغوا کرنے کے بعد کچھ فاصلے پر ڈرائیور کو ایس ایس پی دادو کے نام پرچی دے کر چھوڑ دیا۔ معروف مصنف اور سماجی رہنما ذوالفقار قادری کے مطابق چینی انجنیئرز کو بدنام ڈاکو لطیف چانڈیو اور اسحاق منگنہار کے ٹولے نے اغوا کیا تھا، لیکن بعد میں ڈاکووں نے تینوں چینی باشندوں کو ضلع دادو کے مشہور ڈاکو لائق چانڈیو کو بیچ دیا۔ ڈاکوؤں نے پولیس کو بھیجی گئی پرچی میں لکھا کہ ہم نے دن دہاڑے انجنیئروں کو اغوا کیا ہے۔ ہم کچے کی طرف جا رہے ہیں کسی میں دم ہے تو آکر ہم سے مغویوں کو چھڑا کر لے جائے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ انٹرنیشنل خبر بن چکی تھی کیونکہ اغوا ہونے والے تینوں افراد چینی مہمان تھے اور اوپر سے چینی حکومت نے پاکستان میں چلنے والے تمام منصوبے بند کرنے کی دھمکی دیدی تھی۔ تمام صورتحال نے اسلام آباد کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ سندھ کے طاقت ور وزیر اعلیٰ جام صادق علی بے بس ہو چکے تھے۔ ڈاکو لائق چانڈیو کا ٹھکانہ کیٹی جتوئی میں تھا۔ پولیس کو سب کچھ معلوم تھا اس کے باوجود کسی بھی آپریشن سے گریز کیا گیا۔ ڈاکوؤں نے پھر ایک پرچی کے ذریعے مطالبہ کیا کہ مغوی انجنیئرز کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے اس لئے تاوان کا فوری بندوبست کیا جائے۔ اس سے قبل مہمانوں کے لئے ایئر کنڈیشنڈ اور دیگر سہولیات کا بندوبست کیا جائے۔ ایس ایس پی اختر جانوری اور ڈی آئی جی حیدر آباد سلیم اختر صدیقی کو حکم تھا کہ ڈاکوؤں تک رسائی حاصل کی جائے اور غیر ملکی مہمانوں کو ہر سہولت فراہم کی جائے۔ ذوالفقار قادری لکھتا ہے کہ سندھ حکومت نے پیارو گوٹھ شگر ملز دادو سے ہیوی جنریٹر، ایئر کنڈیشنر، ڈِش اینٹینا اور ٹیلی وژن وغیرہ کا بندوبست کیا جو کیٹی جتوئی میں ایک ریسٹ ہائوس میں ڈاکووں کو فراہم کر دیے گئے۔

سندھ حکومت نے مغوی چینی انجنیئرز کے لئے جی ایم سید کے فرزند امیر حیدر شاہ، چانڈیو قبیلے کے سردار نواب سلطان احمد چانڈیو، ڈاکو لائق چانڈیو کے مرشد پیر آف رانی پور سید روشن علی شاہ، پیر ستابو شاہ اور نبن خان لوند سے رابطہ کیا تاکہ غیر ملکی مہمانوں کو خیر و خوبی کے ساتھ ڈاکوؤں کے چنگل سے بازیاب کرایا جا سکے۔

ان تمام افراد کے مذکورہ ڈاکوؤں سے رابطے تھے۔ ڈاکوؤں کے پاس ان کا مرشد روشن علی شاہ جب ملنے گیا تو لائق چابڈیو نے کہا کہ مرشد سائیں آپ کے لئے بے حد احترام ہے آپ کی خاطر مغویوں کو جانی نقصان نہ پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن کروڑوں روپے تاوان کے بغیر بازیابی نہیں ہوگی۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی نے خود نواب سلطان چانڈیو سے ملاقات کرکے اسے آمادہ کیا کہ حکومت انہیں ہیلی کاپٹر فراہم کرے گی، وہ جاکر ڈاکوؤں سے بات چیت کریں۔ حکومت کا خیال تھا کہ ڈاکوؤں کا تعلق بھی چانڈیو قبیلے سے اس لئے قبیلے کا سردار مہمانوں کی بازیابی کے لئے موثر رہے گا۔ شوفر ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر نواب سلطان چانڈیو جب خیرودیرو کے قریب جنگلات میں پہنچا تو ڈاکووں نے اس کا استقبال کیا لیکن نواب سلطان حیران رہ گیا کہ ڈاکو تو بڑے مزے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ایئر کنڈیشنڈ ریسٹ ہائوس میں ہر طرح کے عیش و عشرت کا ساز و سامان موجود تھا۔ چار دنوں تک نواب سلطان ڈاکوؤں سے مذاکرات کرتا رہا اور اصرار کرتا رہا کہ مغویوں کو میرے سپرد کرو تاکہ ان کو ہیلی کاپٹر میں اپنے ساتھ لے جاؤں اور حکومت کے سامنے سرخرو ہوجائوں۔ لیکن ڈاکو تاوان کی رقم لینے کے لئے بضد تھے۔ بالآخر قبیلے کے سردار کی حیثیت میں احسان کرتے ہوئے ڈاکوؤں نے ایک چینی انجنیئر کو بازیاب کردیا۔

حکومت کی تمام تر کوششیں دم توڑ رہی تھیں اور وفاقی حکومت کی تشویش بڑھ رہی تھی۔ بالآخر وزیر اعلیٰ جام صادق علی اور مشیر داخلہ عرفان اللہ مروت کو اسلام آباد طلب کیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور صدر مملکت غلام اسحاق خان نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہر صورت میں غیر ملکی مہمانوں کو بازیاب کرانے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ڈاکو کروڑوں روپے تاوان مانگ رہے ہیں۔ ثالثوں کے ذریعے بات چیت چل رہی ہے اس لئے وفاقی حکومت قومی خزانے سے رقم ادا کرے۔ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف نے جام صادق علی کو کہا کہ جتنی رقم لگتی ہے سندھ کے سرکاری خزانے سے لگاؤ، بعد میں وفاق صوبے کو یہ رقم ادا کردے گا۔

بالاآخر نبن خان لوند کو یہ ٹاسک سونپا گیا، جس نے اپنے کاٹکو ٹائپ دوستوں کے ہمراہ ڈاکوؤں سے مذاکرات شروع کیے۔ سماجی قلمکار ذوالفقار قادری کے مطابق ڈاکوؤں کے مطالبے پر مجیب لغاری نامی ایک شخص کو سندھ پولیس میں اے ایس آئی بھرتی کیا گیا۔ تاوان کی رقم بھی طے ہوگئی۔ سرکاری خزانے سے دس کروڑ روپے کی رقم نکالی گئی تھی، لیکن نبن خان لوند کو پانچ کروڑ روپے ملے، جس سے ڈاکووں تک آدھی رقم پہنچی۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ اس رقم میں سے بڑی تعداد میں جعلی نوٹ نکلے تھے۔ پچیس دنوں کے بعد چینی انجنیئرز کی خیر خوبی سے بازیابی ہوئی۔ اس واقعے کے بعد نبن لوند کو بڑی شہرت ملی۔ نبن خان لوند کا تکیہ کلام ہوتا تھا ون دھک۔ کوئی بھی کام ہوتا تھا تو کہہ دیتا تھا کہ ون دھک کردو۔ بعد میں اس کے خلاف کئی مقدمات بھی بنے تھے۔ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ فنکشنل میں چلا گیا، بعد میں وہ دادو کا تعلقہ ناظم بھی بنا۔ دادو جیل کی پرانی عمارت پر قبضے کا تنازعہ چلا جس میں فائرنگ کے دوران ایک شہری ہلاک ہوگیا تھا۔ اپنے آخری ایام میں نبن خان لوند شدید بیمار تھا۔ اس کی اپنے بیٹوں کے ساتھ بھی لڑائی چل رہی تھی۔ اس نے خود ہی شکایت کی تھی کہ بیٹوں نے اس کی ملکیت پر قبضہ کرلیا ہے۔ گذشتہ روز سندھ کے اس مشہور کردار کا انتقال ہوگیا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔