تختِ طاؤس جس سے نادر شاہ نے دلّی کو محروم کر دیا تھا!
شہاب الدین محمد المعروف “شاہ جہاں” نے 1628 سے 1658 تک ہندوستان پر راج کیا۔ وہ پانچواں مغل شہنشاہ تھا جس نے ممتاز محل کی محبت میں وہ عظیم اور اعجوبہ عمارت تعمیر کروائی جسے دنیا بھر میں “تاج محل” کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
شاہ جہاں کے دور کو مغلیہ سلطنت کے عروج کا عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ 1658 میں شاہ جہاں کو اُس کے بیٹے نے معزول کر دیا تھا۔
شاہ جہاں فنِ تعمیر میں دِل چسپی رکھتا تھا اور اس کے عہد میں کئی خوب صورت اور یادگار عمارتیں تعمیر کی گئیں جو آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ تاج محل ان میں سے ایک ہے۔
اسی مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تخت نشینی کے بعد اپنے لیے ایک نہایت قیمتی تخت تیار کرایا تھا جسے ’’تختِ طاؤس‘‘ کا نام دیا گیا۔
اس تخت کا طول تیرہ جب کہ عرض ڈھائی گز اور اونچائی پانچ گز رکھی گئی تھی۔ تخت کے چھے پائے تھے جو خالص سونے سے تیار کیے گئے تھے۔
ہندوستان کے فرماں روا کے اس تخت پر چڑھنے کے لیے تین چھوٹے چھوٹے زینے تھے جن میں قیمتی جواہر جڑے گئے تھے۔
اس تخت کے دو کناروں پر دو خوب صورت مور بنائے گئے تھے جن کی چونچ میں موتیوں کی لڑی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان موروں کے سینوں کو سرخ یاقوت سے سجایا گیا تھا جب کہ ٹیک یا پشت والے حصّے پر قیمتی ہیرے جڑے ہوئے تھے۔
نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا تو ہر طرف بڑی تباہی اور بربادی ہوئی اور عمارتوں کو نقصان پہنچا، یہی نہیں بلکہ ان میں موجود قیمتی ساز و سامان، اور ہر قسم کی دولت لوٹ لی گئی جس میں تختِ طاؤس بھی شامل تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس حملے کے بعد نادر شاہ یہ تخت بھی اپنے ساتھ ایران لے گیا تھا۔