اُمّتِ مُسلِمہ

سہیر عارف

آج میں ایسے موضوع پر بات کرنے جا رہا ہوں جس کی طرف زیادہ تر لوگوں کا یا تو دیہان نہیں ہے یا پھر لوگ اُسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اُس کے عادی ہوچکے ہیں.

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں ایک پڑھے لکھے آدمی کے لیے نوکری کا حصول کتنا مشکل ہے، وہیں پاکستانیوں کے لیے یہ ایک بہت ہی آسان بات ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایماندار ہوں یا پھر جن کے پاس کوئی وسائل نا ہوں. پاکستان میں ایسے بہت سے شعبہ جات ہیں جن میں کوئی بھی شخص مَحَض سفارش کی بنیاد پر اپنی مَن چاہی پوسٹ پر نوکری حاصل کرسکتا ہے، اور پاکستان جیسے ملک میں تو جعلی ڈگری کا ایک رواج کئی دہائیوں سے رواں ہے!

ویسے تو پاکستان میں تقریباً ہر شعبہ میں سفارشی اور جعلی ڈگریوں پر لوگوں کی بھرتیاں کی جاتی ہیں، اور ابھی پچھلے دِنوں پی آئی اے حادثے کے بعد جعلی ڈگریوں پر پائلیٹس کی بھرتیوں کا انکشاف بھی ہوا تھا، اِسی طرح کمپیوٹر اور انجینئرنگ کے شعبہ میں بھی جعلی ڈگریوں پر نوکریاں حاصل کی جاتی ہیں لیکن کیونکہ اِن شعبوں میں عددی فارمولے (نیومیریکل فارمولے) پر ٹیکنیکل کام ہوتا ہے اِس وجہ سے جعلی ڈگڑی والے کامیاب نہیں ہوپاتے، لیکن اور بہت سے شعبہ ہیں جہاں دھوکہ بازی سے نوکریاں کی جاتی ہیں اور اِن میں سَرِ فہرست میڈیکل کا شعبہ ہے، ہمارے یہاں ڈاکٹرز کے زیرِ نگرانی کام کرنے والا ایک کمپاؤنڈر مَحض چند سالوں کے تجربے کی بنیاد پر خود کو ڈاکٹر سمجھ کر اپنا کلینیک کھول کر وہاں مریضوں کا علاج شروع کردیتا ہے، اِسی طرح کبھی کوئی دانتوں کا ڈاکٹر بن جاتا ہے تو کوئی گائنی کولوجِسٹ اور پھر مریضوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم آئے دِن خبروں میں ملاحظہ کرتے رہتے ہیں.

یہ تو ہوئی اوپری سطح کی بات، اب ہم زرا دوا سازی کے شعبہ کی بات کر لیتے ہیں جہاں جعلی ڈگریوں اور سفارشی بھرتیوں کا طوفان بپاہ ہے، یہاں تک کہ جس نے میٹرک بھی نہیں کیا وہ بھی جعلی ڈگریوں یا سفارش کی بنیاد پر ابتدائی سطح پر اچھی آمدنی حاصل کرتا ہے اور پھر تجربہ کی بنیاد پر اُس کی آمدنی میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.

اور پاکستان میں یہ چیز بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ اندرونِ شہر، گاؤں اور دیہاتی علاقوں سے پڑھ کر لوگ جھوٹ اور نقل کی بنیاد پر ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور شہر میں آکر اُنھیں اچھی پوسٹ پر نوکریاں بآسانی مِل جاتی ہیں، اِس طرح ایک شخص جو محنت سے اپنی تعلیم حاصل کرتا ہے اُس کے لیے پریشانیوں اور آزمائش کا دور شروع ہوجاتا ہے.

اگر پاکستان میں نوکری حاصل کرنے کا معیار مَحَض سفارش، دھوکہ بازی ہے تو جو لوگ لاکھوں روپے لگا کر، دِن رات محنت کر کے اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور پھر پیشہ وارانہ میدان میں اُنھیں اِنہی سب چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بندہ کیا کرے؟ اب اُس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو اِس سسٹم کا حِصّہ بن جاتا ہے یا پھر اپنی ایمانداری کے ساتھ ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے، اور جس کے پاس کوئی سفارش اور کوئی وسائل نہیں وہ خود کَشی کر لیتا ہے.

ایک اور چیز جو ملکِ پاکستان میں دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ جعلی کمپنیاں نوکری کی لالچ دے کر عوام سے پیسوں کی ماننگ کرتی ہیں، اور لوگ اُن کمپنیوں کے جھانسے میں بھی آجاتے ہیں.

اور پھر ہم مُلک میں عدل و انصاف کی بات کرتے ہیں، جبکہ حالت ہماری یہ ہے کہ خود اپنی اصلاح کے لیے تیار نہیں اور حَد تو یہ کہ ہم خود کو غلط ہونے کے باوجود صحیح کہتے ہیں اور ہڈرمی کے ساتھ اپنا دفاع بھی کرتے ہیں.

ایک مسلمان ہونے کے طور پر کیا ہم اتنے بے غیرت قوم ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنے علاوہ کسی اور کا خیال ہی نہیں! ہمیں تو غیر مسلموں کے لیے مثال بننا تھا لیکن یہاں تو مسلمان باہمی ایک دوسرے کے ساتھ انصاف نہیں کرتے تو لوگوں کے لیے کیا مثال بنیں گے! اور اِس بارے میں صحیح احادیث میں رسولِ خُدا (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کے فرامین موجود ہیں کہ؛ (مفہوم) "جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم (مسلمانو‍ں) میں سے نہیں” ایک اور روایت میں ہے کہ؛ قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کے لیے ایک جھنڈا ہو گا، اُس کے ذریعے اُس کو پہچانا جائے گا۔

نوٹ: یہ بلاگر کی اپنی ذاتی رائے ہے. وائس آف سندھ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔