ہماری لبرل سوسائٹی اور سوشل میڈیا
گزشتہ حالات و واقعات کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے اور تجزیہ کرکے بلاشبہ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی پستیوں کا گڑھ بنتا جا رہا ہے عہد رفتا میں گزرے حالات و واقعات اور حال میں بظاہر خواندہ اور تہذیب یافتہ کہلائی جا نے والی سوسائٹی کیا قلب مطمیئنہ سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے. جی ہاں یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ ہمارے معاشرتی رویہ جات ہماری ذہنی و فکری سوچ کی بھرپور عکاسی کر رہے ہیں۔
پچھلے دنوں گزرے واقعات جب نظر سے گزرے تو دل شرمندہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا قصہ کرنل کی بیوی کا ہو یا برگر کلاس کی تہذیب یا فتہ خواتین کا ان حالات میں سوشل میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ان واقعات کو مزید ہوا دیتے ہوئے فریقین کی پگڑیاں اچھالی گئیں جبکہ فہم وفراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان معاملات کو خاموشی سے سلجھایا بھی جا سکتا تھا۔ سوشل میڈیا نے جہاں دنیا کو گلوبل ویلج بنایا وہیں اسکے ناقص استعمالات کا بمقابلہ مثبت پہلوؤں کے زیادہ تناسب دیکھا گیا۔
قصہ کرنل کی بیوی کا جس نے پولیس ناکے پر مردانہ وار اپنے اندر کی فرسٹریشن نکالتے ہوئے اپنے شوہر کے اعلیٰ عہدے کی دھونس جمائی اور شاید آنکھوں پہ پٹی باندھے دل کا غبار نکالتی رہی لیکن اصل غبار تو سوشل میڈیا پر نکلا اور دیکھا گیا جب کرنل کی بیوی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنی۔ بلا شبہ محترمہ نے جو کیا وہ انتہائی منفی رویہ تھا جو کہ ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں کے لیے تحقیروتوہین اور شرمندگی کا باعث بنا لیکن ان تمام جزئیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تو کیا محترمہ کی حرکات و سکنات کی ویڈیو عکس بند کرنا اور پھرانٹرنیٹ پر وائرل کرنا جہاں یہ لاکھوں سوشل میڈیا صارفین کی نظروں کے سامنے سے گزری ہوگی کسی تہذیب یافتہ معاشرے کا شیوہ نہیں ہے۔
اسی کے مترادف قصہ مشہور ومعروف ماڈل کا جس کے گھر رات کی تاریکی میں بارسوخ و بااثر ٹھیکیدار کی قریبی عزیزہ نے ہلا بول دیا بقول ٹھیکیدار کی عزیزہ اس نے اپنے شوہر اور ماڈل کو حالت غیر میں پایا اور آپے سے باہر ہو گئی اور کسی جلاد کی مانند آسمان سر پہ اٹھالیا۔ اس تمام نجی صورتحال کا بھی سوشل میڈیا پر خوب چرچا رہا اس تمام صورتحال کو عکس بند بھی کیا گیا اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ بھی کیا گیا اور پھر ہو نا کیا تھا یہ نجی واقعہ بھی سوشل میڈیا کی نظر ہوگیا۔
سوشل میڈیا وہ پلیٹ فارم ہے جوآدھے سے زیادہ نوجوان نسل کے زیر استعمال ہے تو ہماری نوجوان نسل ان فرسٹیٹڈ حالات و واقعات سے کیا سبق سیکھے گی اور کن راہوں کی مسافت اختیار کرے گی کوئی ماڈل کے حق میں ہو گا تو کوئی ٹھیکیدار کی عزیزہ کے حق میں لیکن عام عوام کا دوسروں کے حساس و نجی معاملات میں ملوث ہوکے رائے زنی و طعنہ زنی کرنا کسی طور قابل قبول نہیں۔ لہذاا جب ہمارے معاشرے میں موجود پڑھے لکھے اور ایلیٹ کلاس لوگ ہی اس طرح کی اخلاق شکن حرکات میں ملوث ہوں گے تو نئی نسل کیا سیکھے گی اور زندگی کو کس انداز سے دیکھے گی۔ یہ سب انتہائی پریشان کن ہے۔
پڑھی لکھی اشرافیہ لبرل ازم کے نام پر بے حیائی پھیلاتی ہے اور مغربی کلچر کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اپنی خوبصورت روایات کا گلا گھونٹ دیتی ہے یہ ہی وہ طبقہ ہے جو معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے اور مڈل کلاس ولوئر مڈل کلاس بشمول تھرڈ کلاس طبقہ اسی اشرافیہ کی تقلید کرنا چاہتا ہے کیونکہ چمک دھمک اور قیمتی خوشبوئیں تو ہر ذی روح کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں لیکن یہاں امتحان ہمارے ایمان اور یقین محکم کا ہے کہ ہم کس طرح اپنی اپنی ذات اور نفس کی اصلاح کرتے ہیں اور اپنی کن خواہشات کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں اور کن خواہشات کو ناجائز جانتے ہوئے اپنی حدود قیود متعین کرتے ہیں کیونکہ یہ سب اسباق ہمارے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔