والدین کی علیحدگی سے بچوں پر اثرات

دعا بتول
 
خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، اور فرد خاندان کی۔ ایک فرد اپنے خاندان سے ہی سیکھتا ہے کہ اسے معاشرے میں کیسے اٹھنا بیٹھنا ہے اور سماجی کاموں میں کس طرح سے لینا ہے۔

 

 دو لوگ شادی کے وقت ایک معاہدہ کر رہے ہوتے ہیں آئندہ کی زندگی ساتھ گزارنے، ہر طرح کے حالات کا مل کر مقابلہ کرنے اور آنے والی نسل کی مل کر پرورش کرنے کا۔ جو کہ رب کی طرف سے ایک خوبصورت نظام ھے۔
لیکن یہ معاہدہ مختلف وجوہات کی بناء پر ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ اگر علیحدگی کے وقت خاندان بڑھ چکا ہو تو اس کے اثرات کا دائرہ کار وسیع ہو جاتا ھے۔ جس میاں بیوی کے ساتھ بچے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ میاں بیوی آگے چل کر شاید اس اثر سے نکل بھی جاتے ہیں لیکن بچوں پر طلاق کے اثرات دیرپا بلکہ یوں کہہ لیں مستقل رہتے ہیں۔
چونکہ خاندان ہی بچوں کے لیے جذباتی اور عملی سہارے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے ٹوٹنے سے اکثر بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، لوگوں سے میل جول اور ان کا سامنا نہیں کر پاتے ،ان کی خود اعتمادی اثر انداز ہوتی ہے، تعلیمی و تفریحی سرگرمیوں میں دلچسپی نہیں رہتی، مزاج میں چڑ چڑاپن اور  صحت خراب ہو جانا، مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ یوں ان کی شخصیت میں رہ جا نے والا خلا بڑے ہو کر بھی ان کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ خاندانی نظام پر یقین نہیں رکھتے اور مستقبل میں ان کی طلاق کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
یوں یہ افراد جو کہ خود میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ اپنے آ س پاس کے لوگوں کو وہ توجہ نہیں دے پاتے جو کہ عام ماحول میں بڑا ہونے والا شخص دیتا ہے۔ ان کا اندرونی اضطراب انہیں معاشرے کے لیے پوری طرح کارآمد ہونے سے روکے رکھتا ہے۔
                طلاق ایک اہم سماجی مسئلہ ہے۔ سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر ہی رشتہ ازدواج میں بندھا جائے ۔ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اسے نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ با وجود اس کے بھی اگر یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو ان ٹوٹے ہوئے گھروں کے بچوں پر خاص توجہ دی جائے۔ ان کے ماں باپ ان کی الجھنوں کو جتنا ہو سکے سلجھانے کی کوشش کریں۔ تا کہ وہ ذھنی اذیت سے بچ کر بہتر زندگی گزار سکیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔