لاپتا افراد کا معاملہ پرانا، عدالتی حکم پر راتوں رات حل نہیں ہوسکتا، حکومت

اسلام آباد: حکومت کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کے 2300 کیسز کا معاملہ حل طلب ہے وزیراعظم کی ہدایت پر یہ معاملہ حل کیا جارہا ہے، یہ چار دہائیوں پر مشتمل مسئلہ ہے، جو عدالتی احکامات پر راتوں رات حل نہیں ہوسکتا۔
یہ بات وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ لاپتا افراد کا مسئلہ حکومتی اور عسکری حلقوں میں زیر بحث رہا، پاکستاں نے چار دہائیوں میں دہشت گردی کا سامنا کیا، لاپتا افراد کا معاملہ دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ پیپلز پارٹی حکومت میں پہلی بار اٹھایا گیا، جس کے بعد 10 ہزار 200 کیسز کمیشن میں گئے، ان میں سے 8 ہزار سے زائد کیسز کمیشن میں حل ہوئے، لاپتا افراد کے 2300 کیسز کا معاملہ حل طلب ہے، وزیراعظم کی ہدایت پر لاپتا افراد کا معاملہ حل کیا جارہا ہے، یہ چار دہائیوں پر مشتمل مسئلہ ہے، یہ معاملہ عدالتی احکامات سے راتوں رات حل نہیں ہوسکتا۔
وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ اس ملک میں شہید ہونے والے ورثاء کے شدید تحفظات ہیں، 2011 میں لاپتا افراد کمیشن بنایا گیا، لاپتا افراد کے صرف 23 فیصد کیسز زیر التوا ہیں، لاپتا افراد کے معاملے پر بہت کام کیا گیا، ای سی ایل سے متعلق قواعد و ضوابط موجود ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ سے جو سمری آتی ہے، کابینہ قواعد کے مطابق اس پر فیصلہ کرتی ہے، پی ٹی آئی لیڈرز کا نام ای سی ایل سے نکالنا کسی ڈیل کا حصہ نہیں۔
دریں اثناء وفاقی وزیر قانون نے جسٹس کانفرنس میں تقریب سے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ بہتری کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے، پاکستان نے تین یو این معاہدوں ہر دستخط کیے ہیں، وقت کے تقاضوں کے مطابق قانون میں بہتری کا عمل جاری رہتا ہے، اس حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ منشیات کے مقدمات میں سزائے موت کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی تھیں، جس کے بعد پارلیمان نے قانون سازی کے ذریعے پھانسی کو ختم کیا، یقین دلاتا ہوں کہ حکومت عوام کی بہتری کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
وزیر قانون نے کہا کہ قوانین وضع کررہے اور بہتری لارہے ہیں، موجودہ قوانین میں ترامیم کی جارہی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ قوانین میں کچھ ترامیم ہونی چاہئیں، ریاست کی اولین ذمے داری ہے کہ کسی بے گناہ شخص کو سزا نہ ہو، حکومت اپنی ذمے داری پوری کررہی ہے، منشیات میں ملوث افراد کی بحالی کے لیے پالیسی مرتب کی جارہی ہے۔

 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔