میرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب

155 ویں برسی پر خصوصی تحریر

تحریر: زاہد حسین

غالب پر لکھنا بھی بس "لانا ہے جوئے شیر کا” والا معاملہ ہے۔ ساری رات غالب پر لکھ لکھ کر مٹاتا، پھر لکھتا اور مٹاتا رہا۔ بہت کچھ ڈاؤن لوڈ بھی کیا، لیکن جو کچھ لکھا، جو کچھ سوچا، جو کچھ ڈاؤن لوڈ کیا، سبھی غالب کے سامنے ہیچ نظر آیا،
مرزا نوشہ نے کہا تھا:
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں
مرزا جی، ہم نے تو سنا تھا تم سچی شاعری کرتے تھے۔ جانے تمہارے کتنے ہی اشعار کی تشریحات مختلف اساتذہ سے سن رکھی ہیں، جس نے بھی تمہارا ایک شعر سنایا، داد میں ہم نے یہی سنا، "بھئی واہ، کیا سچا شعر ہے!”
میرا خیال کچھ عجیب ہے چچا میرزا آپ کے بارے میں۔ میں نے اس تحریر میں سب سے پہلے جو شعر لکھا ہے، قسم تمہاری، مجھے آج بھی جھوٹ لگتا ہے۔ اگرچہ تمہارا ایک شعر جس میں دو متضاد باتیں تم نے کہہ رکھی ہیں، مجھے دونوں ہی سچ لگتی ہیں۔ تم نے کہا تھا:
"بنا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے”
پہلا مصرع دیکھو تو سچ ہی تو کہا تھا، لیکن ہائے دوسرا متضاد جملہ، کم بخت وہ بھی سچ۔ بھئی میرزا، تم نے جس بات کی خود تردید کردی، ہم تو، تمہاری قسم، اسے بھی سچ مان بیٹھے ہیں۔
تمہارا متذکرہ بالا، شعر بھی تمہارے کلامِ دِگر کی طرح سچا اور کھرا ہے۔ تم کہتے ہو، "غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں” ہائے چچا، اب تم کو کون سمجھائے کہ تمہارے بغیر ہی تو خوش خیالی اور خوش سخنی کا جملہ کام بند پڑا ہے۔ تم نے جو، سوچ لیا، وہ آج تک لوگ کہنا تو درکنار، کبھی سمجھ بھی نہ سکے، کجا کہ کچھ کہتے۔ 155 برس گزر گئے تمہیں جہانِ دروبستِ ارضی سے گزرے۔ اب تمہاری سوچ اور لفظ لوگ مستعار لے رہے ہیں۔ ہاں ایک کام تمہارے بعد ضرور ہوا ہے۔ کچھ خوش گلو لوگ تمہارا کلام خوبی سے گا کر اپنا فرض ادا کرگئے۔ اب بھی دو شخصیات تمہارے کام سے اپنا نام بنانے میں مصروف ہیں۔ ایک اپنے ضیاء بھائی جن کے نام میں معروف لکھاری "محی الدین نواب” کے نام کا سابقہ بطور لاحقہ جُڑا ہوا ہے۔ وہ بخوبی تمہارا کلام ایک گھنٹہ سنا کر لاکھوں دل بٹور لیتے ہیں۔ اور دوسرے وہ ہیں جن کا آنگن کئی دہائیوں سے ٹیڑھا ہے اور وہ تمہارے نام فرضی خطوط لکھ لکھ کر اور سنا سنا کر تالیاں سمیٹنے، بلکہ یوں کہیے کہ آنگن سیدھا کرنے میں لگے ہیں۔ قسم لے لو چچا، انور منصود کا آنگن ٹیڑھا تھا اور ٹیڑھا ہی رہے گا۔ اللہ اپنے ضیا بھائی اور آپا زہرہ نگاہ کے انور بھائی دونوں کو، سلامت رکھے۔ ارے ہاں، اپنے گلوکار طلعت محمود، ثریا اور نورجہاں بھی تو اپنے سچے سُروں اور سچی کھری آوازوں میں تمہارا سچا کلام گا گئے ہیں۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
(طلعت محمود اور ثریا، انڈین فلم مرزا غالب)
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
(ملکہ ترنم نورجہاں، پاکستانی فلم مرزا غالب)
ذرا سن کر بتانا، طلعت محمود اور ثریا نے مل کر زیادہ اچھا، حق ادا کیا، یا نورجہاں اکیلے ہی دونوں کو پیچھے چھوڑ گئی؟

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔