مہنگائی کا ذمہ دار کون؟
رمضان المبارک کا پہلا روزہ تھا، شام کے وقت افطاری کیلئے سامان لینے باہر نکلا تو دکانوں پر کافی رش تھا. کچھ دور لوگوں کا ایک ہجوم سا نظر آیا تو مجھے گمان ہوا کہ شاید وہاں مفت نہیں تو کم از کم کچھ کم قیمت پر سامان مل رہا ہوگا. قریب جا کر دیکھا تو تین چار افراد ایک بڑی عمر کے شخص سے دست و گریباں تھے. جب لڑنے کی وجہ معلوم کی تو پتہ لگا کہ اس شخص کا قصور یہ تھا کہ اس نے پھلوں کی اس دکان کے بالکل سامنے سڑک کی دوسری جانب اپنا پھلوں کا ٹھیلہ کچھ دیر کیلئے کھڑا کیا تھا جس پر دکان کے مالک کو غصہ کو آگیا اور انہوں نے اس ٹھیلے والے کی پٹائی کردی.
عموماً ایسے مواقع پر جھگڑوں کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ دکان پر ملنے والی چیزوں کے مقابلے میں ٹھیلوں پر وہی اشیاء کچھ کم قیمت پر مل جاتی ہیں جبکہ دکاندار چیزیں فکس ریٹ پر ہی دیتے ہیں. اس وجہ سے دکان کے بجائے زیادہ تر لوگ پھل اور سبزی وغیرہ بھی ٹھیلوں سے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں. دوسرے لوگوں کی طرح بیچ بچاؤ کی کوشش میں کامیاب ہونے کے بعد میں نے پھلوں کی دکان پر جاکر کچھ پھلوں کی قیمت معلوم کی تو عجیب حیرانی ہوئی، وہی چیزیں جو میں نے ایک دن پہلے وہیں سے خریدی تھی انکی قیمت میں راتوں رات اچھا خاصہ اضافہ ہوچکا تھا جب کہ اسٹاک وہی پرانا موجود تھا.
کچھ بحث کی تو وہی گھسی پٹی کہانیاں اور حکومت کو طعن و تشنیع سننے کو ملی جسے سننے کے بعد ہماری قومی روایت کے مطابق ہر چیز کا الزام حکمرانوں کے سر تھوپنے اور حکومت کی غیبتیں کرتے کرتے جب اسی مہنگی قیمت پر سارا سامان خرید لیا. گھر کا رخ کیا ہی تھا کہ ایک عزیز سے ملاقات ہوئی جو پہلے تو کچھ اور کام کرتا تھا مگر رمضان میں وہ سڑک پر پھلوں کا ہی ٹھیلہ لگائے کھڑا تھا باتوں باتوں میں جب اس سے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس کے کسی عزیز نے مشورہ دیا تھا کہ رمضان ہی کمائی کا سیزن ہوتا ہے وہ بھی اس کی طرح ٹھیلہ لگا لے، ایک دو سیزن لگا کر اس نے خوب کمایا ہے۔
بس اسی سے متاثر ہوکر اس نے بھی اس بار سیزن لگانے کا سوچا ہے. اس کے مطابق اسی عزیز نے ایک دو روز پہلے ہی سامان منگوا کر دے دیا تھا جس کے ریٹ رمضان شروع ہوتے ہی بازار میں اب مزید بڑھ گئے ہیں اور اب وہ مہنگے فروخت ہورہے ہیں. باتوں باتوں میں جب میں نے اس سے معلوم کیا تو اس کی باتیں سن کر میں تو ہکا بکا رہ گیا, جب اس نے بتایا کہ جو چیز اس نے 80 روپے میں منڈی سے خریدی تھی , آج اس کا بازار میں 150 روپے ریٹ ہے اور وہ آدھے سے زیادہ مال فروخت کرچکا ہے. یہ سننا تھا کہ میں سر دھننے لگا یعنی دگنے سے بھی زیادہ منافع ایک عام ٹھیلے والا کمانے میں لگا ہوا ہے تو پھر دکاندار اور سپر اسٹورز والے کیا کرتے ہوں گے جن سے سامان خرید کر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچت کرلی ہے.
بطور مسلمان ہمیں کم از کم اتنا تو خیال کرنا چاہیے کہ مہنگائی کی وجہ سے ایک عام آدمی کو جوچیزیں سارا سال میسر نہیں ہوتیں , اس کے گھر میں اس کے دسترخوان پر کم از کم وہ چیزیں رمضان المبارک میں تو میسر ہوں. حکومت کی لاکھ نااہلیاں ہو مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم عوام بھی اپنے حصے کے کاموں میں کرپٹ ہیں , جہاں جس کو موقع ملتا ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق کرپشن کرتا ہے جبکہ رمضان میں تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر کرپشن نظر آتی ہے.حکمرانوں سے نیکی کی امید تبھی رکھی جاسکتی ہے جب ہم میں سے ہر شخص اپنے آپ میں ایک ذمہ دار شہری بننے کا حق ادا کرے.