انگریزی میں ماسٹرز تو کر لیا، مگر اب کیا کریں؟
تعلیم کا مقصد فقط فرد کو باشعور بنانا نہیں، بلکہ اسے تیزی سے بدلتی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی ہے۔ اور ان میں اہم ترین تقاضا روزگار کا حصول ہے۔
یہ سوال ایک عرصے سے زیر بحث ہے کہ ادب اور لسانیات کی ڈگریز حصول روزگار میں کتنی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ عام تاثر ہے کہ سائنس اور بزنس کے ڈگری ہولڈرز کے پاس زیادہ مواقع ہوتے ہیں، جب کہ سوشل سائنسز کے میدان میں امکانات نسبتا کم ہیں۔
انگریزی اور اردو ادب کی ڈگریز کی افادیت بھی وقت کے ساتھ کم ہوئی ہے، اس کی اصل کھپت تدریس کا شعبہ ہے کہ میٹرک سے بارہویں تک یہ مضامین لازمی، اور بعد میں بھی اختیاری مضمون کے طور پر موجود۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ آج جتنے ڈگری ہولڈز ہمارے سامنے آرہے ہیں، اتنی ملازمتیں گورنمنٹ اور پرائیوٹ سیکٹر میں موجود نہیں۔
پھر یہ سوال بھی ہے کہ انگریزی ادب یا لسانیات میں ایم اے کرنے والوں کے لیے بیرون ملک کتنے مواقع ہیں؟ کیا گلوبل لینگویج کہلانے والی یہ زبان کیریر کی تشکیل میں معاون ہوتی ہے؟
اس ضمن میں نمل یونیورسٹی، کراچی سے بہ طور مدرس وابستہ جناب افضل حیات سے گفتگو معاون ثابت ہوسکتی ہے، جو پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی انگریزی پڑھانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں انگریزی ادب میں ماسٹرز کرکے ادیب بننے کا تصور کبھی پنپ نہیں سکا، کیوں کہ ادب کو کیریر تصور نہیں کیا جاتا، صحافت میں ایم اے انگلش کے بجائے جرنلزم کے ڈگری ہولڈر کو اہمیت دی جاتی ہے، سول سروس میں یہ ڈگری یوں متعلقہ نہیں کہ سول سروس کا تعلق براہ راست امتحان سے ہے، جو ہر شخص گریجویشن کے بعد دے سکتا ہے۔
کراچی میں آنکھ کھولے افضل حیات کہتے ہیں کہ انگریزی میں ماسٹرز کرنے والے افراد کو درحقیقت تدریس ہی کا شعبے میسر ہے، البتہ ماضی کے برعکس اب یہاں بھی ملازمتوں کے مواقع کم ہوئے ہیں، پرائیویٹ سیکٹر میں پے اسکیل اتنا نہیں۔
وفاقی اردو یونیوسٹی سے ماسٹرز کرنے والے یہ مدرس اس وقت جامعہ کراچی سے ایم فل کا مرحلہ طے کر رہے ہیں۔ انھوں نے چند برس سعودی عرب کے شہر ریاض میں امریکی اسکولنگ سسٹم کے تحت چلنے والے ایک ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔
وہ تجربہ تو خوش گوار رہا، مگر وہاں رہ کر انھیں اندازہ ہوا کہ پاکستان میں انگریزی میں ماسٹرز کرنے والوں کو بیرون ملک ترجیح کم ہی دی جاتی ہے، اسکول کی سطح تک مواقع موجود ہیں، مگر یونیورسٹیز میں ان ہی افراد کو منتخب کیا جاتا ہے، جن کے پاس ان ممالک کی ڈگری ہو، جہاں انگریزی مادری زبان ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ پاکستانی ہیں، مگر آپ کے پاس ڈگری native country کی ہے، تب امکان ہے، یعنی بیرون ملک سے کی جانے والی ڈگریز اور سرٹیفکیکٹس زیادہ سودمند ہیں۔ ہاں، آپ پاکستان میں رہتے ہوئے انٹرنیشنل سرٹیفیکیٹ کرسکتے ہیں، مگر بات پھر آن کر آپ کی ڈگری پر رک جاتی ہے۔
ان حالات میں کیا آپ نوجوانوں کو انگریزی ادب میں ماسٹرز کا مشورہ دیں گے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ علم انسان کو فائدہ ہی پہنچتا ہے، البتہ کسی بھی مضمون کو منتخب کرتے ہوئے کیریر کونسلنگ ضروری ہے۔ شوق کے لیے ماسٹرز الگ بات ہے، لیکن اگر کیریر بنانا ہے، تو تمام پہلوؤں پر غور کر لیں۔