آوُ نفرتیں ختم کردیں

نازیہ علی

مملکت پاکستان کے تیزی سے بڑھتے ہوے مشکلات اور مسائل، ہم جب تک ایک دوسرے کی نفرتیں ختم نہیں کرینگے تب تک ہم اپنی داخلی الجھنوں سےنجات ،فرقہ وارانیت،طبقہ بندی،ذات پات اور سب سے بڑھکر صوبائ تناوں کھچاوں کے فرق سے باہر نہیں آہینگے۔ ہم اپنے دینی سے ملک سے محبت نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے ذات اپنی زبان اپنے فرقہ سے پیار کرتے ہے جو ایمان کی بہت کمزور حالت ہیں۔اور ہم خوش اپنے آپکو بہت خوش نصیب سھمجتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔اور جنت میں جاینگے۔ یہ ایک فکر لحمہ ہے کہ کس طرح ہم نے اسلام نظریہ ختم کر کے اپنے نظریات کو مفاد پرستی کو بڑھاوادیا۔اف میرے رب ہدایت کی شدید ضرورت ہے۔

یہ قوم ہر برے کام کو فخر سے کرتی ہیں۔موت سے ختم آخرت سے انجان ہوکر۔
موت سے بڑی کوئ حقیت ہی نہیں۔اور بس اسکی کوئ تیاری بھی نہیں۔یہ ہمارا ایمان کامل ہے کس طرح ہم غریبوں کا حق کھا کھا کر اپنے بچوں کو خوشیاں دینا چاہتے ہیں۔
انسان کتنی غفلت میں ہیں۔
ہم مسلمان ہیں تو آخرت پر ایمان ہمارا عقیدہ ہے۔تو پھر اتنے خسارے میں کیوں ہیں ہم؟؟؟؟
بات یہ کہ میں اپنے آپ سے سوالات پو چھتی ہوں اپنے پیر مرشد کے پردے کے بعد ، صاحب کردار کیا ہے؟
صاحب کردار وہ ہے جو اللہ کو مقصود ہے اللہ کو مطلوب ہے اللہ کو پیارا ہے۔اللہ کا پسند دیدہ ہے۔
اب کچھ لوگ یہ کہتے کہ ہم کیس طرح اللہ کو پیارے ہوجاے .تو جواب ہے عمل صالح۔۔۔۔۔تو عمل صالح کیا ہے۔
واہ میرے کائنات کے بادشاہ میرے رب کریم تو نے بے انتہا مخلوق پیدا کی مگر جب تو نے انسان کو تخلیق کیا تو ہر دور کے حساب سے ولی،نبی، خلیفہ،نیک لوگ بزرگان دین بھجے اور پھر سب سے بڑھ کر ہدایت کے لیے بہت سی کتابیں اتاری مگر آخر میں قران پاک اتارا اور اسی طرح ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر میں آخری میں اپنے محبوب کو بھیجا۔اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اللہ ایک ہی کتاب سے ہدایت نہں کرواسکتا تھا۔

پھر دوسرا سوال کیا ایک نبی سے ہی دین نہیں پھیلاسکتا تھا؟اللہ کے پاس تمام پاور ہیں۔تو یہ کیوں کیا گیا؟ اب میں یہاں اپنی ادنی غور و فکر کروں تو مھجے سھمجہ آتا ہے کہ

اللہ پاک نے ہر زمانے کے لحاظ سے ہدایتیں بھجی تو اسکا مقصد یہ ہے کہ اللہ کو اچھے سے اچھا ہونا پسند ہے۔
تو اب سوال ہے اچھے سے اچھا کون ہے۔کس کو اچھا شخص کہا جاے۔تو اچھا شخص کیا ہے۔وہ جو انسان قیمتی ہوں مطلب جو کردار رکھتا ہوں تو کردار کا تعین کون کرے گا کہ وہ کیسا ہونا چاہیے۔
تو میں نے غور و فکر کیا کہ انسان کی قیمت میں آضافہ کا سبب اسکا عمل صالح ہے جو اسکا کردار کہلاتا ہےکردار کے بنے میں صبر بھی ایک اہم مقام رکھتا ہے۔۔. ۔۔
صبر آنسو روکے کا نام نہیں اپنے نظریہ پر ڈٹ جانے کا نام ہے۔۔۔۔
ایک مومن اپنے عقائد نہیں بدلتامومن جمے ہوے گڑے ہوے پہاڑ کی طرح ہوتا ہے۔ مزے کی بات ہے مولا علی علیہ سلام کا قول ہے۔کچھ لوگ چلتے پھرتے جنازے ہیں۔یعنی وہ زندہ ہے اللہ اللہ کرتے ہیں۔مگر عمل صالح سے دور ہے اگر کوئ انکی روح کو پاک کرنے کی کوشش کرے تو وہ سخت ناراض ہوجاتے ہیں۔
جیسے کہ

ایک آدمی کتنا امیر یا خوب صورت ہو یا کوئ غریب مگر وہ روز نہاکر کپڑے بدلتا ہے۔کیوں اس لیے کہ وہ صاف و پاک رہنا چاہتا ہے مگر کوئ اگر ہماری روح کو پاک رکھنا چاہیے جیسے کوئ ہمیں غیبت، حسد،مے،جھوٹ دھوکے سے روکےتو وہ ہمیں برا کیوں لگتا ہے کیونکہ ہم اپنے کپڑوں کی جسم کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں مگر اپنی روح کی نہیں۔۔
تو نازیہ ، اللہ کے پاس ہمارا جسم جاے گا یا کپڑے جو ہم روز دھوکر نہا کر پہنتے ہیں یا روح۔اس روح کا رشتہ و وقار ہی کردار ہے۔جب ہم اپنی روح کی خاطر اپنے عمل میں عمل صالح لاتے ہیں تو وہ ہمارا کردار بلند کرتی ہے اس سے ہماری شخصت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اب میں آونگا اس طرف کہ موت حقیقت تو اللہ کے پاس جانے کی کیا تیاری کر رے ہیں ہم یہ سوال اپنے اندار لاکھوں سوال سموٙے ہوا ہیں۔جس نے اسکا جواب پالیا نازیہ بس اس نے ہدایت کا راستہ پالیا۔
ہمیں ہر لحمہ یاد رکںھنا ہوگا کہ علم کے بغیر اسلام نہیں اور ااور ایمان کے بغیر علم نہیں اور تقوی کے بغیر ایمان نہیں۔اگر یہ نہیں تو سھمجےہم دینی نہیں بلکہ بہت لنگر نیاز یا کچھ بھی کرکے اپنی راسومات یا عادات کو مکمل کر رہے ہیں ناکہ دین کی۔
یہ کیا شیعہ،سنی، وہابی،اس سے بچے تو سندھی ,پنجابی ,پھٹان, بلوچی, مہاجر میں بٹ گیے ہیں۔

نوٹ: یہ بلاگر کی اپنی ذاتی رائے ہے. وائس آف سندھ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔