لندن سے لاک ڈاؤن تک

شہریار شوکت

11جون 1978 کو کراچی میں ایک طلبہ تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ ۔یہ تنظیم ایک مخصوص طبقے کی محرومیاں دور کرنے کے غرض سے بنائی گئی تھی۔ سندھ کے شہری علاقے کے لوگوں نے اسے دل سے تسلیم کیا اور سر آنکھوں پر بٹھایا۔

شاید لوگ موجودہ سسٹم سے تنگ تھے۔ وہ تنگ تھے اس نظام سے جو بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد آیا ۔وہ کوٹا سسٹم سے تنگ تھے، ملازمتوں کے نہ ملنے سے تنگ تھے، وہ اپنے ہی شہر کی جامعات میں داخلہ نہ ملنے سے تنگ تھے۔ نوجوانوں نے اس طلبہ تنظیم کو تیزی سے جوائن کرنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ طلبہ تنظیم ایک سیاسی جماعت کی شکل اختیار کر گئی۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر اور میر پور خاص میں اکثریت رکھنے والوں کو یہ لگنے لگا کہ یہ تنظیم ہی انکا مستقبل ہے۔ تنظیم نے کام کا دائرہ بڑھایا اور ملکی سطج پر کام کرنا شروع کیا، لیکن ناجانے پھر کیا ہوا؟ کراچی والوں نے جسے اپنا سمجھا انہوں نے ہی کبھی چندہ تو کبھی فطرہ کہہ کر مال بٹورنا شروع کردیا۔ کراچی کی دیگر قوم پرست اور برائے نام مذہبی تنظیمیں بھی میدان میں اتر آئیں۔ اکثر علاقوں کا حال یہی تھا کہ کوئی تنظیم یا قوم اس پر قبضہ کرلیتی اور باقیوں کیلئے وہ علاقہ غیر بن جاتا وہاں ان کی انٹری بند ہوتی۔ شہری گھر سے نکلنے سے قبل دیکھتے کے آج کتنے گھر اجاڑے گئے۔ کتنے جوان موت کے گھاٹ اترے۔اہلیان کراچی نے قومیت کی بنیاد پر بہنوں بیٹیوں کو لٹتے دیکھا۔

میاں نواز شریف سے جسے چاہے جتنا اختلاف ہو لیکن وہ یہ بات ضرور تسلیم کرے گا کہ ان کے دور میں کراچی میں آپریشن کا آغاز ہوا اور اہلیان کراچی نے سکھ کا سانس لیا۔ نو گو علاقے عوام کے لئے کھل گئے۔ لوگ رات دیر تک سکون سے کاروبار کرنے لگے۔ کسی کو اپنی مرضی کے خلاف چندہ، فطرہ، کھال یا بھتا نہ دینا پڑتا۔ شہر میں ہڑتالوں کا سلسلہ ختم ہوا۔ شہری پرسکون زندگی بسر کرنے لگے۔ اہلیان کراچی نے تحریک انصاف کو بھاری مینڈیٹ دیا، لیکن افسوس کہ کراچی والے ایک بار پھر دھوکا کھا گئے۔ سندھ کے شہری علاقوں سے ووٹ لینے والوں نے عوام کے لئے کچھ نہ کیا بلکہ ہر بات پر وہی جملے دہراتے رہے کہ صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کی ہے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ کراچی کی تباہی کی ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

سندھ کے شہریوں کو ان مسائل سے دوچار ہوئے کئی سال گزر چلے ہیں۔ لندن کے بعد اب انہیں لاک ڈاؤن کا سامناہے۔ بلاشبہہ اس بات سے انکار نہیں کہ کورونا ایک وائرس ہے اور اس کا پھیلاو خطرناک ہوسکتا ہے لیکن ذرا ملکی صورتحال کا جائزہ لیں۔ پورا ملک کھلا ہے، اگر کہیں لاک ڈاون ہے بھی تو جزوی ہےجبکہ کراچی میں مخصوص کاروباروں کے علاوہ ایک بار پھر سب بند کردیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔ کاروباری حضرات اپنا گزشتہ سال کا نقصان ہی پورا نہیں کرسکے تھے کہ ایک بار پھر انکو لاک ڈاون کے شکنجے میں جکڑ لیا گیا۔ایسے میں پولیس اہلکاروں اور سرکاری افسران کا عوام اور بالخصوص کاروباری شخصیات کے ساتھ سلوک انتہائی خراب ہے۔ سوشل میڈیا پر بطور ثبوت اس کی کئی ویڈیوز موجود ہیں۔ ایس او پیز کی خلاف ورزی کے نام پر گرفتار کئے جانے والے تاجروں کو عادی مجرموں کی طرح لاک اپ کردیا جاتا ہے۔ کیا ایک لاک اپ میں سیکڑوں تاجروں کا بند ہونا ایس او پیز کے مطابق ہے؟ شکوہ کریں تو کس سے صوبے کے وزیراعلی’ صاحب خود فرما رہے ہیں کہ ویکسین لگوائیں، پولیس والوں کی چاندی نہ کرائیں، یعنی آپ پولیس والوں کے رویوں سے باخبر ہیں؟ اگر با خبر ہیں تو آپ کا ایکشن نہ لینا کیا ثابت کرتا ہے؟

دنیا کے کسی اور ملک میں کسی جاگتی اور باشعور قوم کے ساتھ ایسا ہوتا تو شاید اب تک احتجاج کئے جارہے ہوتے۔ لوگ احتیاط بھی کرتے ایس او پیز پر عمل بھی کرتے اور حکومت سے مطالبات بھی کرتے لیکن چونکہ نہ تو ہمارا شعور سے کوئی تعلق ہے اور نہ اقبال اور جناح کی وفات کے بعد کبھی پیداری کا سوچا اس لئے یہ دو آپشن تو ناممکن ہیں، ہم آنے والے افسر کی چمچا گیری کریں گے، ہم اپنا کاروبار تعاون کی بنیاد پر چلائیں گے تعاون کا مطلب کون نہیں جانتا ۔

اس تمام تر صورتحال کے بعد زرا لوگوں سے بات چیت کرکے دیکھیں۔ جس طرح عمران خان کی غلط پالیسیوں کے بعد لوگ سابقہ حکمرانوں کو یاد کرکے کہتے تھے کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے اسی طرح اب کہنے لگے ہیں کہ برے تھے لیکن ان سے تو بہتر تھے۔ پیپلز پارٹی کی غلط پالیسیاں کراچی کے تقسیم شدہ سیاسی گروہوں کو ایک کرنے کے لئے کافی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران آفاق احمد، ڈاکٹر فاروق ستار اور فیصل سبزواری کے بیانات بھی سن لیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جلد سندھ کے شہری حصوں میں سیاسی جماعتوں کا ایک اتحاد بنے گا۔ نہ چاہتے ہوئے جماعت اسلامی بھی اس اتحاد کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی اور پھر ایک نئی سیاسی قوت سامنے آئے گی۔ بظاہر اس کی سربراہی ڈاکٹر فاروق ستار یا آفاق احمد کرتے نظر آرہے ہیں لیکن زیادہ امکانات نرم طبیعت کے مالک ڈاکٹر فاروق ستار کے ہی ہیں۔ وفاق سے آئے دن کے ٹاکرے کے باعث نادیدہ قوتیں بھی اس الحاق گروپ کی حامی ہوں گی۔

پیپلز پارٹی کو سمجھنا ہوگا کہ اس کی پالیسیاں عوام کے حق میں نہیں۔ جو افسران لاک ڈاؤن کراسکتے ہیں وہ عوام سے ایس او پیز پر عمل بھی کراسکتے ہیں۔ پولیو ویکسین کی طرح کورونا وائرس کی ویکسین بھی گھر گھر جاکر سب کو لگائی جاسکتی ہے۔ مکمل لاک ڈاؤن عوام کو معاشی طور پر تباہ کررہا ہے۔ بھوک اور غربت سے مرتے عوام کہیں اپنا فیصلہ صوبائی حکومت کے خلاف نہ کردیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔