بھوک: ناروے کے ٹالسٹائی، کھنوت ہامسُن کے شاہ کار ناول کی کہانی

شگفتہ شاہ، ناروے

کھنوت ہامسُن ناروے کے سب سے اہم اور جدید ناول نگاری کے بانی ادیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ناروے میں انہیں بیسویں صدی کا سب سے بااثر ادیب سمجھا جاتا ہے۔ ۱۹۲۰ میں انہیں ادب کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔
کھنوت ہامسُن کا ادبی سفر لگ بھگ ستر سال پر محیط ہے، انہوں نے بیس سال کی عمر سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا، مگر یکم جون ۱۸۹ میں جب ان کا پہلا ناول ‘بھوک’ شائع ہوا، تو وہ ایک رومانوی ناول نگار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور انہیں ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس ناول کی اشاعت نے نہ صرف یہ کہ ہامسُن کو ایک مقبول ناول نگار، بلکہ ایک سال کے اندر اندر مالی طور پر ایک خوش حال شخّص بھی بنا دیا۔ ۱۸۹۲ء میں ‘اسرار ‘ اور دو سال بعد ‘پین ‘ کی اشاعت عمل میں آئی اور کھنوت ہامسُن نے سکینڈے نیوین ممالک کے صفِ اوّل کے ناول نگاروں میں اپنی جگہ بنالی۔ پھر ان کی تصانیف کا ایک تانتا سا بندھ گیا۔
انہوں نے بیس سے زائد ناول، ایک شعری مجموعہ، ایک سفر نامہ ، افسانے، ڈرامے، اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی لکھے۔ اب کھنوت ہامسُن نہ صرف سکینڈے نیویا بلکہ یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی اپنی ادبی حثیّت منوا چکے تھے۔ روس میں جہاں ان کی کتابوں کے متعدد ایڈیشن شائع ہوتے، انہیں ٹالسٹائی اور دستوفسکی کے ہم پلہ ادیب قرار دیا گیا۔ وہ ناروے کے پہلے ادیب تھے، جنہوں نے نارویجین ادب میں جدید رومانویت کا آغاز کیا۔ ان کے سب سے مشہور ناولوں (بھوک، پین اور وکٹوریا) میں رومانویت کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے، جب کہ بعد کے ناولوں میں جدید حقیقت پسندی کا رنگ نمایاں ہے۔ ۱۹۱۷ء میں شائع ہونے والے ناول ‘زمینی خزانہ’ میں شمالی ناروے کی جغرافیائی منظر کشی اور دیہی حقیقت نگاری کی بنا پر انہیں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
کھنوت ہامسُن ناروے کے سب سے زیادہ فلمائے جانے والے ناول نگاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کے متعدد ڈرامے منظر کئے گئے۔ ۱۹۲۱ء میں ان کے ناول ‘زمینی خزانہ’ اور ۱۹۲۲ء میں ‘پین’ کو فلمایا گیا۔ ان کے ناول ‘بھوک ‘ کو بھی فلمایا گیا۔ ۲۰۱۰ میں ان کے ناول ‘وکٹوریا’ پر بنائی گئی فلم سینما گھروں کی زینت بنی۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی نظریات اور ناروے پر جرمنی کے قبضے کی حمایت کی وجہ سے کھنوت ہامسُن ناروے میں ایک متنازعہ شخصیت سمجھے جانے لگے۔ ان پر غداری کے الزام میں مقدمہ بھی چلایا گیا اور ناروے کی سپریم کورٹ نے انہیں ایک بھاری جرمانے کی سزا بھی سنائی۔ تاہم ان کے سیاسی نظریات نے ان کی ادبی ساکھ کو متاثر نہیں کیا اور وہ آج بھی ناروے کے سب سے زیادہ مقبول ادیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔

Knut Hamsun commemorated on Norwegian coin | Knut Hamsun | The Guardian

ناول بھوک پر ایک نظر:
کھنوت ہامسُن کا ناول ‘بھوک’عالمی ادب کے ابتدائی جدید ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا ترجمہ مخمور جالندھری نے اردو میں کیا، جسے اب دوبارہ قارئین کے لیے پیش کیا گیا ہے۔اسے سٹی بک پوائنٹ کراچی نے ری پرنٹ کیا ہے۔
یہ ایک غریب اور بے روزگار نوجوان کی کہانی ہے، جو ایک چھوٹے شہر سے تلاشِ روزگار کے سلسلے میں دارالحکومت کرستیانیا(اوسلو کا قدیم نام) آتا ہے۔ اور ایک مصنف کے طور پر قسمت آزمائی کرتا ہے، مگر کام کے حصول میں ناکامی اسے فاقہ کشی کے دہانے پر لے جاتی ہے۔ اس کی صحت گرنے لگتی ہے اور وہ ایک ایک کر کے اپنی ذاتی اشیاء رہن رکھنے لگتاہے، مگر ان انتہائی مالی مشکلات میں بھی وہ اپنا وقار برقرار رکھنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے اور اپنی قوتِ ارادی کے بل بوتے پر ہر روز ایک نئی لگن کے ساتھ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کی جدوجہد میں سر گرمِ عمل ہو جاتا ہے۔ وہ ایک درد مند دل کا مالک ہے اور انتہائی مشکل سے حاصل کردہ چند سکوں میں سے بھی کچھ پیسے ایک ضرورت مند خاتون کو بچے کے دودھ کے لئے دے دیتا ہے، حالاں کہ اسے خود ان پیسوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ بالآخر اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ کرستیانیا جیسے بڑے شہر میں بھی خود کو ایک مصنف کے طور پر متعارف کروانے میں ناکام رہتا ہے اور وہاں سے واپس چلا جاتا ہے۔
یہ کہانی ترقی پذیر معاشرے کے ایک جدت پسند انسان کی نفسیات کا گہرا مشاہدہ پیش کرتی ہے۔ ایک انسان جو ترقی کے خواب دیکھتا ہے اور امید ویاس کی صورت حال میں معلق تن تنہا اپنی جدوجہد میں مصروف رہتا ہے، مگر ایک نام نہاد جدید معاشرے میں اپنے خوابوں کی تعبیر پانے میں ناکام رہتا ہے۔ کہانی کا رومانوی اندازِ تحریر اور اس کی منفرد تکنیک جس میں صرف ایک فردِ واحد کے شعور کا دھارا کہانی کو آگے بڑھاتا ہے، نارویجین ادب میں پہلا تجربہ تھا، جسے اس کے بعد آنے والے بیسویں صدی کے جدیدیت پسندادیبوں نےوسیع پیمانے پر اپنے تجربات کا حصّہ بنایا۔
کھنوت ہامسُن کے پہلے ہی ناول ‘بھوک ‘ نے نہ صرف یہ کہ انہیں اپنے دور کے صفِ اوّل کے ناول نگاروں میں لا کھڑا کیا، بلکہ یہ ایک ایسا ناول ہے جس کا سحر تا حال قائم ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔