لاوارث شہر

احسن لاکھانی

اقتدار کی دیواریں اس قدر بلند ہوتی ہیں کہ عام شہریوں کی صدائیں اُن تک نہیں پہنچتی۔ لاغر اور کمزور آوازحلق سے نکلتی ہے اور وہیں دم توڑ جاتی ہے۔ تخت شاہی کا صدیوں سے یہی رواج رہا ہے کہ اپنے محل کے در و بام اس قدر اونچے رکھے جائیں کہ وہاں سے شہر کی گندگی، غلاظت، بدنما سڑکیں اور دم توڑتی بستیاں نہ دکھائے دیں۔ اس روئے زمین پر ایک ایسا شہر بھی بستا ہے جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، جو کبھی رنگ و خوشبو سے مہکتا تھا، جہاں زندگی رات میں رواں دواں رہتی۔ چہروں پر سکون، سڑکوں پر چہل پہل اور گھروں پر رونقیں رہتی تھیں۔ اس شہر کی بربادی کا اس قدر تذکرہ کیا جا چکا کہ اب صاحبِ اقتدار کے لئے یہ شکوہ بھی عام سا شکوہ ہے جو بے کار اور غریب لوگوں کی صدائیں ہیں جس کی کوئی حیثیت نہیں، جس کی کوئی وقعت نہیں۔

لاوارث شہر میں برسات کے بعد پانی ہفتوں تک سڑکوں پر ٹھہرارہتا ہے یہاں تک کہ اُس پانی میں غلاظت مل کر اُس کی شان میں مزید اضافہ کر رہی ہوتی ہے اور اس کے باسیوں کو ان کی اوقات یاد دلاتی ہے۔ بجلی بھی بہت نایاب ہوتی جا رہی ہے، کسی روٹھی ہوئی نئی نویلی دلہن کی طرح ناراض ہوجاتی ہے تو بس پھر آنے کا نام نہیں لیتی۔ سڑکیں ویسے ہی ٹوٹی پھوٹی ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ ایسا ہے جسے کسی عجائب گھر میں رکھا جانا چاہیے لیکن وہ سڑکوں پر دھندھناتی پھر رہی ہیں، پینے کا پانی نایاب ہے اور بہت لالچی بھی پیسے دو تب ہی آپ کے پاس آتا ہے۔ تعلیم کسی دوائی کی طرح ہے جسے عام بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے صرف خاص بچوں کے لئے ہی دستیاب ہے۔

لیکن یہ سب شکوے عبث ہیں، فضول ہیں۔ یہ سارے الفاظ بے ثمر ہیں اور یہ سارے جذبات بے معنی۔ لاوارث شہر کو بربادکرنے میں اپنوں کا ہی ہاتھ ہے چاہے وہ اس شہر کے منتخب نمائندے ہوں، کاروباری حضرات ہوں، چھوٹے بڑے تاجر ہوں یا پھر اس شہر کے رہنے والا عام انسان۔ سب نے مل کر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس شہر کو اجاڑا، اسے برباد کیا، اس کی خوبصورت نقش نگاری کو بدنما کرکے اسے بدصورت بنایا۔ بربادی کا یہ سفر رواں دواں ہے، تباہی کا یہ خوفناک منظر نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ اس شہر کو ہم خود ہی مار رہے ہیں، اس کی چیتا پر ہم خود ہی آگ لگا رہے ہیں پھر اس کی راکھ کو ہم خود ہی سمندر میں بہا دیں گے اور پھر ماتم بھی خود ہی کر کے اپنے ہاتھوں سے کئے ہوئے گناہ پر خود ہی آنسو بہا رہے ہوں گے۔جب تک اس شہر کے لئے ہم خود نہیں اٹھیں گے تب تک ہم اس کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں۔جرم کا مرتکب ہونا اور پھر اُسی جرم پر ماتم کرنا بڑا ہی انوکھا عمل ہے۔ لاوارث شہر کی بدقسمتی کے اسے غیروں اور اپنوں سب نے ہی برباد کیا، ووٹ سب نے مانگا کام کسی نے نہیں کیا، شاید اب یہی اس لاوارثہر کی قسمت ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔