کراچی اور تشدد کی سیاست!
آج کل جے آئی ٹیز کا زور وشور ہے اور عذیربلوچ، سانحہ بلدیہ اور نثارمورائی کی تفتیشی رپورٹ زیربحث ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ سب اگر ان رپورٹس میں نہیں بیان کیا جاتا تو ہمیں معلوم ہی نہیں چلتا کہ اس شہرکراچی میں کیا کیا ہوتا رہا ہے ؛تشدد کی اصطلاح کو کراچی کے ساتھ جوڑ کر پڑھا جاتا رہاہے؛ بیانیہ بناتے وقت سیانے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مخصوص تاریخ سے پرے کی بات نہیں چھیڑی جاتی کہ بحث کسی اور جانب نہ چلی جائے ۔ کراچی شہر میں تشدد کی سیاست کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک کرنا زیادتی ہو گی ؛ ان الزامات سے کسی جماعت کی برئیت نہیں۔ 1960 کی دہائی سے اس شہر کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر ایک سرسری نظر ڈالنا اشد ضروری ہے۔
ایوب خان کے صدارتی الیکشن کے دوران مادرملت فاطمہ جناح کے خلاف مہم، الیکشن میں ’’کامیابی‘‘ کے بعد کراچی شہر کو مادر ملت کا ساتھ دینے کی پاداش میں مہاجر اردو بولنے والوں پر چڑھائی ؛ بھٹو دور کا لسانی بل، کوٹہ سسٹم اور لسانی فسادات ؛ 12دسمبر 1986 سہراب گوٹھ پر منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن اور اس کے ردعمل میں 14دسمبر 1986 کو بلاجواز علی گڑھ قصبہ کالونی کی مہاجر آبادی پر ان منشیات فروشوں کا مسلح حملہ 300 کے قریب پرامن شہری جاں بحق؛ 1987 میں کراچی میں پنجابی پختون اتحاد کا قیام اور لسانی بنیادپر چھوٹے بڑے سانحات اور جھڑپیں بالخصوص خواجہ اجمیر نگری، شاہ فیصل ٹاؤن، گرین ٹاؤن،ملیر، ماڈل کالونی، الفلاح سوسائٹی ، گولڈن ٹاؤن، پنجاب ٹاؤن، نیو کراچی، نارتھ کراچی، سہراب گوٹھ، الآصف اسکوائر، سرجانی ٹاؤن، ناظم آباد ، پہاڑگنج، شیرشاہ ، بنارس کالونی وہ نمایاں علاقے ہیں جہاں لسانیت اور عصبیت کے نام پر خون خرابہ کیا گیا.
ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ؛ 1987 کے بلدیاتی الیکشن کے فورا بعد مہاجر آبادیوں پر حملوں کا سلسلہ ، خواجہ اجمیر نگری اور نیو کراچی کے علاقوں پر 8 مئی 1988 کو مسلح چڑھائی جس میں کئی معصوم شہری جاں بحق ہوئے ؛ 5 فروری 1988 کو کراچی کے علاقہ جلال آباد میں منشیات فروشوں نے حملہ کر کے گھروں کو آگ لگا دی اوررہائش پذیر خاندانوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا گیا ؛ 1987 سے 1992 تک ماڈل کالونی ملیر کے متعدد علاقوں میں پی پی آئی کے دہشت گردوں کے حملے ؛ 30 ستمبر 1988 کو حیدرآباد میں مسلح افراد نے شہر کےمختلف مقامات پر بے گناہ معصوم شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 200 افرادکو جاں بحق اور متعدد کوشدید زخمی کر دیا ؛ 26 اور 27 مئی 1988 کی درمیانی رات پکا قلعہ حیدرآبادکو گھیرے میں لے کر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے کئی افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں انہیں بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا جاتا ہے ، معصوم خواتین سروں پر قرآن شریف رکھ کر گھروں سے باہر نکلیں لیکن انہیں بھی نہیں بخشا گیا ؛ 22 فروری 1990 کو کراچی شہر میں ایم کیو ایم کے استقبالی کیمپس پر دہشت گردوں کی فائرنگ اور متعدد کارکنان کا جاں بحق ہو جانا؛ اور ایسے کئی واقعات ہیں جن کا تذکرہ اب نہیں کیا جاتا۔
1988 پی پی پی دور کا انتظامی آپریشن، 1992کا مسلم لیگ ن دور کا آپریشن کلین اپ،پی پی پی دور میں 1995 اور 1996کا نصیراللہ بابر کا آپریشن، 1998 مسلم لیگ ن کے بعد گورنر راج کے بعد آپریشن کریک ڈاؤن اور بالاآخر 2015 مسلم لیگ دور کا آپریشن ۔ 1998 سے 2003 تک کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی، ملیر، لانڈھی، لیاقت آباد اور لائنز ایریا ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم حقیقی میں تصادم کے باعث متحدہ کیلئے نوگو ایریاز تھے اور بڑی تعداد میں وہاں سے متحدہ کے ہمدردوں کی نقل مکانی ہوئی جبکہ شہر کےدیگر علاقوں سے حقیقی کے ہمدردوں نے نقل مکانی کی۔
یہ بات طے ہے کہ violence breeds violence اور hate begets hate ؛ضرورت اس بات کی ہے اس شہر کے مسائل اور مصائب دونوں کو تلخ تاریخی حقائق کی روشنی میں جائزہ لے کر درست سمت کی جانب سفر کا آغاز کیا جائے۔ بہت سارے واقعات حالیہ تاریخ کے ہیں جن کا حوالہ اس لئے نہیں دیا گیا کہ ان کا تذکرہ عام ہے؛ JIT کے انکشافات کو آگے بڑھا کر ثبوت و شواہد تک لے جانا تحقیقی اداروں اور پولیس کی ذمہ داری ہےتاکہ مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے ۔
صدرفاروق لغاری کابےنظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کا 5نومبر1996 کا صدارتی حکم نامہ ضرور پڑھیں جس کا پہلا نکتہ کراچی میں ہونے والےماورائے عدالت قتل اور حراست کے دوران ہونے والے قتل ، کراچی پولیس کی ماورائے آئین وقانون سرگرمیاں اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں سمیت اسی حکم نامے میں مرتضی بھٹو کے قتل کے حوالہ سے انکشافات ہیں۔ یقینا صدراتی حکم نامے کی اہمیت ایک JIT سے زیادہ ہے۔ ایک سیاسی جماعت کا عسکری نہیں بلکہ باقاعدہ ملک دشمن ونگ الذولفقار کی اعلانیہ قیادت مرتضی بھٹو کرتے تھے اور اس تنظیم کے سلام اللہ عرف ٹیپو نے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا؛ ایک اور بڑی سیاسی جماعت سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملہ کر چکی ہے ؛ حال ہی میں لاہور اڈل ٹاؤن سانحہ بھی اسی سیاسی جماعت کے کھاتے میں ہے؛ لال مسجد اسلام آباد پر Operation Sunrise فوجی آپریشن اور اس کے دورا ن کمانڈر لیفٹنٹ کرنل ہارون الاسلام کا زخمی ہونا اور دو روز بعد شہید ہو جانا؛ لاہور کے گوگی بٹ، ٹیپوٹرکاں والا، گلو بٹ، طیفی بٹ وغیرہ نامور بدنام زمانہ لوگ اور ان کی سیاسی سرپرستی؛ پنجاب کاچھوٹو گینگ اوراسی طرح سرداروں ، وڈیروں اور چوہدریوں کی زمینوں پر قائم ذاتی جیلیں اور قیدخانے بھی تلخ حقیقت ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہی تشدد کا عنصر ہے اسی لئے حریف جماعت میں موجود ایسے عناصر کو neutralize رکھنے کیلئے ہر سیاسی جماعت میں ایسے عناصر کی سرپرستی کی جاتی ہے۔کسے نہیں معلوم 1980 کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی میں سب سے پہلے سیاست میں ہتھیار اور کلاشنکوف کس جماعت نے متعارف کروائے.
جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبا کی سرپرستی میں چلنے والے ’’تھنڈراسکواڈ‘‘ نے ایسا کیا۔لہذا پیپلزپارٹی ہو، مسلم لیگ ن ہو، جماعت اسلامی ہو ، اب تحریک انصاف کے حوالہ سے بھی انکشافات سامنے آ رہے ہیں کہ امن کمیٹی اور عذیر بلوچ سے تعاون اور مدد حاصل کی اور یقینا ایم کیو ایم یا قوم پرست جماعتیں یا سندھ اور پنجاب میں موجود دیگر جماعتیں سب اپنے اپنے حساب کتاب کے مطابق اس کی ذمہ دار ہیں۔ابھی سب گجنی کیفیت میں ننھے بن چکے ہیں اور selective memory کی بہترین اداکاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
یقینا آج حالات وہ نہیں جو 1960 سے 1990کی دہائی تک رہے۔ بہتر ہو گا کہ ایک Truth & Reconciliation Commission قائم کیا جائے ،سب کا احتساب ہو اور مکمل حقائق سامنے لائے جائیں تاکہ اعتراف حقائق اور درگزر کے سنجیدہ معاملات ممکن ہو سکیں اور کراچی کے عوام بھی ان تلخ یادوں کی زنجیروں سے آزاد ہو سکیں، احساس ندامت اور شرمندگی کا اظہار تمام جانب سے ہو تو بہت ممکن ہے کہ آنے والی نسلیں نفرتوں سے نجات حاصل کر لیں ۔تشدد اور دہشت گردی کو دفن کرنا ہے تو ا س شہر کی محرومیوں اور اس کے ساتھ ہونے والے متعصبانہ سلوک کا خاتمہ کریں تاکہ ان وجوہات کو ایڈریس کر لیا جائے جس کہ باعث ایک نوجوان کے جذبات کو سیاسی و دیگر نظریات کے دھوکے میں رکھ کر جرائم اور تشدد کے راستوں پر چلا جاتا ہے۔ حساس معاملہ ہے اور احتیاط لازم کہ اس ساری بحث میں کسی بھی ایک سیاسی جماعت پر تنقید کرتے کرتے کہیں اس شہرسے وابستہ کمیونٹی کو دیوار سے نہ لگا دیں۔
نوٹ: یہ بلاگر کی اپنی ذاتی رائے ہے. وائس آف سندھ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔