انسان کی تیس لاکھ سالہ کہانی کا اجمالی خاکہ

راشد کاظمی

کائنات تیرہ ارب سال قبل معرض وجود میں آئی۔ اس کی باقی زندگی تین ارب سال ہے۔ اس کائنات میں موجود ملکی وے گیلکسی کے نظام شمسی کے ایک سیارے پر آج 2021 میں تقریباً 8ارب انسان، 10,000 سے زائد مذاہب، 7000 سے زائد زبانیں بولیں جاتی ہیں۔ 7 خشکے کے بڑے قطعے ہیں۔ 201 ممالک، 77 سمندر، 186 بڑے دریا، 108 پہاڑ، 100 بڑے صحرا، تقریباً 30 کھرب درخت اور 87 لاکھ اقسام کی مختلف و عجیب مخلوقات بستی ہیں۔ زمین کی عمر ساڑھے چار ارب سال ہے۔ اس کا 70.8 فیصد حصہ پانی اور 29.2 فیصد حصہ خشکی پر مشتمل ہے۔

آثار قدیمہ اور علم الانسان (Anthropology) کے مطابق تیس لاکھ سال پہلے انسان نے پتھر میں رہنا شروع کیا۔ پتھر اور لکڑی کو تراش کر اوزار بنائے جس سے ثقافت کی ابتدا ہوئی۔ یہ پتھر کا دور انسانی تاریخ کا طویل ترین دور ہے جو تقریباً تیس لاکھ سال پر محیط ہے۔ جو آج سے چندہزار سال پہلے ختم ہوا جب تانبے کا دور آیا۔انسان کو بیس لاکھ سال لگے آگ ایجاد کرنے میں۔ اس کے مزید چھ لاکھ سال بعد انسان نے آگ پر قابو پاکر اس کو استعمال میں لانا شروع کیا۔آج سے دو لاکھ سال قبل انسان نے بولنا سیکھا۔ آج کے جدید انسان کو بشریات کی زبان میں ہومو سیپین کہتے ہیں یہ ایک لاکھ سال قبل ارتقا پذیر ہوا۔ آج سے دس ہزار سال قبل خانہ بدوش انسان مقامی ہوا۔ ایک جگہ پر ٹھہر گیا۔ گلہ بانی اور زراعت کی ابتدا کی۔ اپنا اجتماعی نظم بنایا جسے ہم ریاست کہ سکتے ہیں۔

پتھر کا دور آج سے 30 لاکھ سال قبل شروع ہوتا ہے اور 3500 قبل مسیح تک آتا ہے۔ جبکہ تانبے کا دور 3500 قبل مسیح سے 1300 قبل مسیح تک آتا ہے۔لوہے کا پہلا پہیہ آج سے 3500 سو سال قبل چین میں بنایا گیا پہلا کرنسی نوٹ چین میں ایک ہزار سال قبل مسیح میں شائع کیا گیا۔ دنیا میں ثقافت لاکھوں سال سفر کر کے تہذیب پر منتج ہوتی ہے پہلی تہذیب آج سے دس ہزار سال قبل موجودہ بلوچستان اور دریائے بولان کے کنارے مہر گڑھ تہذیب کے نام سے جانی جاتی ہے جس میں طاقت، معیشت، حفظ مراتب اور ریاست کے مربوط ادارے پیچیدگی کے ساتھ وقوع پذیر ہو چکے تھےاسی طرح میزوپوٹیمیا کی تہذیب 3500 قبل مسیح مصر کی 3000، گندھارا 2500 چائنہ کی 2000 قبل مسیح میں جدید انسانی زندگی کے دور ہیں۔

آج سے 20 لاکھ سال پہلے سے لیکر زرعی انقلاب یعنی آج سے 10 ہزار سال قبل تک انسان ہنٹر اینڈ گیدرر رہا ۔ یعنی خانہ بدوشوں کے غیر مربوط گروہوں میں زندگی گزارتا رہا۔ اس کے بعد انسان گروہی زندگی سے قبائلی زندگی کی طرف منتقل ہوا۔ جس میں بہت سارے گروہ ایک نظم کے نیچے خاص علاقہ میں قیام پذیر ہوئے۔ جو کہ 7ہزار قبل مسیح سے لیکر 400 قبل مسیح تک انسانی ریاست کا سفر ہے۔ اس کے بعد کچھ قبائل مل کر مزید مربوط نظم کے تحت زندگی گزارنے لگے جس کا نام چیف ڈم ہے جو 400 قبل مسیح سے لیکر 1649 عیسوی تک جاتا ہے۔1649عیسوی کو باقاعدہ انسانی سماجی تنظیم کا سفر ریاست یا قومی ریاست پر منتج ہو تا ہے۔

سقراط

پانچویں صدی قبل مسیح میں یونانی فلسفیوں نے کائنات، اس کی حقیقت اور موجود علم کو عقلی بنیادوں پر کھنگالنا شروع کیا۔ سقراط سے قبل یونانی فلسفی انسان اور کائنات کے متعلق بنیادی سوالوں کو منطق، تجزیہ، سائینس اور رضایات کے پیرائے میں دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ سقراط نے کہا سچ جاننے کے لیے دقیق سوالات کا سامنا ضروری ہے اور یہ منطقی سوالات روح کے تذکیہ کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ افلاطون نے کہا بنیادی حقیقت طبعی دنیا سے ماورا پائی جاتی ہے جبکہ ارسطو نے کہا کہ طبعی دنیا کے تجزیے اور تجربے سے بھی حقیقت تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یونانی فلسفیوں نے انسان اور کائنات کے حوالے سے سوالوں کو اٹھایا منطقی و تجربی دونوں طریقہ ہائے کار کو اپناتے ہوئے علم و استدلال کو آگے بڑھایا۔

1215 میں میگنا کارٹا ہوتا ہے جو برطانیہ کے بادشاہ اور عوام کے مابین ایک معاھدہ ہے جس کی رو سے بادشاہ بھی عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ یعنی ایک عوامی جمہوری ریاست کی طرف پہلا قدم بڑھتا ہے۔ پہلی پرنٹنگ پریس1440 میں جرمنی میں لگائی گئی اور 1500 تک یورپ میں اس پرنٹنگ پریس انقلاب کی بدولت بیس ملین کتابیں شائع ہوئیں جو مغرب کی آج تک کی علمی برتری کی بنیادی وجہ ہے۔ پندرہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی تک کوپر نیکس، گلیلیو، آئین سٹائین، آئزک نیوٹن، اگسٹ کامٹے، ہیگل، کانٹ اور جان لاک نے جدید سائینس، فلسفہ، اورسماجیات کی بنیاد رکھی جس نے انسانی ترقی کی رفتارکو حیران کن حدتک تیز کر دیا۔

میگنا کارٹا 1215

انسانی آبادی 1820 عیسوی تک محض ایک ارب تھی۔ یعنی 30 لاکھ سال کے سفر میں انسان ایک ارب تک 1820 میں پہنچا ۔ 1927ء میں یہ آبادی دو ارب ہوگی ۔ 1960ء میں تین ارب ، 1999ء میں 6 ارب اور 2024 میں یہ آبادی 8 ارب ہو جائے گی۔ صنعتی انقلاب 1850ء میں آیا۔ جبکہ تیل اور پہیے نے ملکر تہلکہ مچا دیا، پہلے سٹیم انجن کا استعمال 1760 ء میں ہوا، پہلی گاڑی 1886 ء میں بنائی گئی کوئلے اور پٹرولیم سے انرجی سن 1900ء سے زیر استعمال ہے۔ پہلا ہوائی جہاز 1903ء بنایا گیا۔ 1969 ء میں پہلا قدم چاند پر رکھا گیا۔

1876ء میں ٹیلی فون ایجاد ہوا۔ پہلا پروگرام ایبل کمپیوٹر 1943ء میں بنایاگیا۔ 1954ءمیں پروگرامنگ لینگویج مرتب کی گئی۔ 1969ء میں آپریٹنگ سسٹم متعارف کروایا گیا۔ 1985ء میں ڈاٹ کام ویب کی طرف بڑھے جبکہ گوگل 1996 ء میں آیا۔

سمارٹ فونز، موبائل انٹرنیٹ 5جی ایل ٹی ای نے مواصلات کی دنیا میں وہ انقلاب برپا کیا کہ شرق و غرق کے فاصلہ مٹا دیے دنیا جہان کی معلومات ایک انگوٹھے تلے جمع کر دیں کہ حضرت انسان محض ایک کلک سے پورے سیارے کو تہ بالا کر سکتا ہے۔ وہ انسان جس نے لاکھوں سال درختوں کو اپنا بچھونا اور پتوں کو اپنا اوڑھنا بنائے رکھا پچھلی چند صدیوں میں ہواؤں کو مسخر کر چکا ہے تحت الثرای کے چھپے خزائن کو کھنگال چکا ہے۔ پچھلی دو دھائیوں میں اس نے مواصلات میں جو انقلاب برپا کیا ہے اس سے یوں لگتا ہے کہ اس کائنات میں اگلی چند دھائیوں میں انسان کا کردار محض زمین کے باسی کا نہیں ہو گا۔ وہ آسمامنی بجلی کو زیر کر لیگا اجنبی سیاروں پر مسکن بنائے گا اور کائنات کی نئی وسعتوں تک رسائی حاصل کر کے ترقی کےلامتناہی سنگ میل طے کرے گا. گلوبل ویلج کا یہ شہری بین القوامی طاقتوں کے زیر اثر ان مقامی اقدارکا پرچارک ہو گا جس میں شناخت شناسائی اور اجنبیت کی غیر مانوس اور وہ نئی جہتیں سامنے آئیں گی جو شاید آج کا انسان سوچنے سے بھی قاصر ہے۔ مگر یہ سب لاکھوں سالوں بعد نہیں بلکہ شاید آنیوالی چند دھائیوں میں ممکن ہو جائے۔


عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہیں یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ ہو جائے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔