افغانستان میں قیام امن کے لئے تیار، مگر اڈے نہیں دیں گے
پاکستان امریکہ کے اشتراک سے افغانستان میں امن کا اہم شراکت دار بننے کے لیئے تیار ہے مگر امریکی افواج کے اعلان کردہ انخلاء کے تناطر میں ہم مزید کسی تنازع کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
طویل عرصے سے مسائل کے شکار ملک افغانستان کے لیے دونوں ممالک کے یکساں مفادات ہیں جن میں سیاسی تصفیہ استحکام ، معاشی ترقی اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے مکمل انحراف شامل ہیں۔ ہم افغانستان میں کسی بھی قسم کے نیم عسکری تسلط کی مخالفت کرتے ہیں جو صرف دہائیوں پر محیط خانہ جنگی کا شاخسانہ ہو، جیسا کہ طالبان تمام ملک پر فاتح کی حیثیت سے مسلط نہیں ہوسکتے مگر پھر بھی انہیں افغانستان میں قائم کسی بھی حکومت کا حصہ بنانا ناگزیر ہے تاکہ وہ حکومت کا میاب ہو سکے۔
ماضی میں بھی پاکستان نے افغان متحارب گروپوں میں تفریق کر کے ایک غلطی کا ارتکاب کیا مگر ہم نے اپنے اس تلخ تجربے سے سیکھ لیا ہے۔ ہماری کوئی پسندیدگی یا فوقیت نہیں، بلکہ ہر اس حکومت کے ساتھ کام کا ارادہ رکھتے ہیں جسے افغان عوام کی حمایت اور اعتماد حاصل ہو۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ افغانستان کبھی بھی بیرونی طاقتوں کے زیر تسلط نہیں رہ سکتا۔
ہمارے اپنے ملک نے افغانستان میں جاری جنگوں کی وجہ سے خاصا نقصان اٹھایا ہے. 70000 سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوئے، ایک جانب امریکہ نے امداد کی مد میں 20 ارب ڈالر عطیہ کیے مگر پاکستانی معیشت کو درپیش نقصان 150 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ سیاحت اور سرمایہ کاری کے شعبہ جات کے حجم میں نمایاں کمی ہوئی۔ امریکہ کی اس کاوش میں ساتھ دینے کے بعد پاکستان کو اتحادی گردانتے ہوئے ہدف بنایا گیا جو ہمارے ملک میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر ایسے گروہوں کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا پیش خیمہ بنا۔ امریکی ڈرون حملے، جن کے بارے میں، میں نے تنبیہ کی تھی، جنگ تو نہ جیت سکے مگر امریکیوں کے لیے نفرت کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنے اور دہشت گرد تنظیموں کی صفوں کو دونوں ممالک کے خلاف ابھارنے کی مزید تقویت دی۔
جیسا کہ میں برسوں اس بات پر زور دیتا رہا کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ امریکہ نے اپنے غلط اندازے کے تناظر میں پہلی بار پاکستان پر دباﺅ ڈالا کہ وہ ان نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں اپنی فوج بھیجے جن کی سرحدیں افغانستان سے ملحق ہیں تاکہ شورش تھم سکے۔ یہ تو نہ ہوا بلکہ اس سے لوگ قبائلی علاقوں کی تقریباً نصف آبادی اپنے گھروں سے بے دخل ہوئی۔ جن میں صرف شمالی وزیرستان کے 10 لاکھ لوگ شامل ہیں۔ مزید برآں اربوں ڈالر کا نقصان اور گاﺅں کے گاﺅں تباہ ہو گئے۔ عام عوام پر اس اچانک افتاد کے نتیجے میں پاکستان کی فوج کے خلاف خود کش حملے شروع ہوئے جن میں پاکستانی فوج کے جوان اس تعداد سے زیادہ جانبحق ہوئے جتنا جانی نقصان امریکہ نے افغانستان اور عراق میں مجموعی طور پر بھی نہ اٹھایا تھا۔ ساتھ ہی ہمارے خلاف مزید دہشتگردی پنپنے لگی ۔ صرف صوبہ خیبرپختونخوا میں 500 پاکستانی پولیس اہلکار قتل کر دیئے گئے۔
ہمارے ملک میں 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں۔ اگر افغانستان میں سیاسی تصفیہ کی بجائے مزید خانہ جنگی وقوع پذیر ہوئی تو مزید مہاجرین / پناہ گزینوں کی آمد ہمارے سرحدی علاقوں کو اور زیادہ کمزور اور غریب تر کردے گی۔ طالبان کی اکژیت پشتون لسانی گروہ سے تعلق رکھتی ہے اور نصف سے زائد پشتون ہماری سرحد کے اس پار بستے ہیں۔ ہم اس تاریخی اعتبار سے آزادانہ آمد ورفت والی سرحد کو بھی مکمل طور پرباڑ لگا رہے ہیں۔ اگر پاکستان امریکہ کو ایسے اڈے دینے پر رضا مند ہو جائے جہاں سے افغانستان پر بمباری کی جاسکے اور ایک افغان خا نہ جنگی عمل پذیر ہو تو پاکستان پھر سے دہشت گرد وں کی انتقامی کارروائیوں کا ہدف بن جائے گا۔ ہم با لکل اسکے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم پہلے ہی اسکی بہت بھاری قیمت ادا کرچکے ہیں۔ دریں اثناء اگر امریکہ تایخ کی سب سے طاقتور عسکری قوت کے ساتھ 20سال بعد بھی افغانستان میں اندرونی جنگ نہ جیت سکا تو ہمارے ملک کے اڈوں سے امریکہ یہ کیونکر کر سکے گا؟
پاکستان اور امریکہ کے افغانستان میں مفادات یکساں نوعیت کے ہیں۔ ہم مذاکرات پر مبنی امن کے خواہاں ہیں نا کہ خانہ جنگی ہمارا مقصد ہے۔ ہم دونوں ممالک استحکام کے متقاضی اور اس دہشت گردی کے خاتمے کے خواہشمند ہیں جو دونوں ممالک کے خلاف بر سر پیکار ہے۔ہم اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں جو گزشتہ دو دہائیوں پر محیط ترقیاتی فوائد کے ثمرات کا تحفظ کرتے ہیں. مزید برآں ہم معا شی ترقی، تجارتی بڑھوتی اور وسط ایشیا تک رسائی چاہتے ہیں تاکہ ہماری معیشت پروان چڑھ سکے۔ ہم سب کی کا وشیں رائیگا ں چلی جا ئیں گی اگر یہا ں مزید خا نہ جنگی نے قد م جما ئے۔ اس تنا طر میں ہم نے جا ر حا نہ طو ر پر سفارتی کا ر گز اریا ں سر انجام دی ہیں تا کہ طا لبا ن کو پہلے امر یکہ اور پھر افغا ن حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر طالبان نے اپنی عسکر ی برتری کا اعلان کرنے کی کو شش کی تو یہ کبھی نہ ختم ہو نے والی خونر یزی کا سبب ہو گا۔ ہم امید کر تے ہیں کہ افغان حکو مت بھی مذاکر ات میں مزید لچک کا مظا ہر ہ کرے گی اور پاکستان کومورد الزام ٹھہرانا بند کردے گی، کیونکہ ہم عسکر ی چارہ جو ئی سے ہٹ کے سب کچھ پر امن اور مخلصا نہ طر یقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم روس ،چین اور امریکہ سمیت اس حا لیہ سہ جہتی توسیعی مشترکہ الامیہ کا حصہ بنے جو بلا شبہ اس با ت کی تا ئید کر تا ہے کہ کابل پر طا قت کے بل بو تے پر حکو مت مسلط کرنے کی کسی بھی کو شش کی ہم سب مخالفت کریں گے اور یہ کوشش افغانستان کو اپنی ضر ورت کی بیرونی امداد تک رسا ئی سے محروم بھی کر دے گی۔
ان مشتر کہ اعلا میو ں سے پہلی با ر افغا نستان کے چا ر ہمسا یو ں اور اتحا دیو ں نے یک زبان ہو کر اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ افغا نستان کی سیا سی علا قائی اتحاد کے خدوخال کی طرز کیسی ہو نی چا ہیے۔ اس سے خطے میں ایک نئے علا قائی اتحا د برائے امن و خو شحالی کا آغاز ہو نا چا ہیے جو افغا ن حکو مت سے مل کر دہشت گردی کے خطرات کا سا منا کرسکے۔ افغا نستان کے ہمسایو ں کو اس با ت کو یقینی بنا نا ہوگا کہ ان کی سر زمین افغا نستان یا کسی اور ملک کے خلا ف استعمال نہ ہو اور افغا نستان کو بھی اسی کا بھر پو ر ادراک کرنا چاہیے اس مجمو عے سے اس عہدکا بھی آغاز ہو گا جو افغا ن عوام کو انکے ملک کی تعمیر نو میں مد د فر اہم کرے۔
مجھے یقین ہے کہ اقتصا دی رابطو ں اور علا قائی تجا رت کا فروغ افغا نستان کے پا ئیدار امن اور تحفظ کی کنجی ہے۔ اگر ہم یہ ذمہ داری مشتر کہ طو ر پر نبھا تے ہیں تو افغانستان، گر یٹ گیم اور علا قا ئی رقابتوں کے استعارے کی بجا ئے علا قا ئی تعاون کے ما ڈل کے طور پر ابھر ے گا۔
بشکریہ: واشنگٹن پوسٹ
وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تحریر، جو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئی