ملک کو بُرے حال میں چھوڑ کر جانے والوں سے جواب مانگا جائے، وزیراعظم
اسلام آباد: وزیراعظم نے سابق حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار سنبھالا تو معیشت کے برے حالات تھے۔ جو لوگ ملک کو برے حال میں چھوڑ کر گئے، جواب ان سے مانگا جائے۔
وزیراعظم عمران خان کا قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ بھارت اور ایران سے ٹڈی دل آنے کا خطرہ ہے۔ یہ پاکستان کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے، اس لیے اس اہم معاملے پر 31 جنوری سے ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے پورا زور لگائیں گے، این ڈی ایم اے کو اختیارات دے دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں نے خود ہی کورونا وبا کے خلاف اقدامات کیے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ لاک ڈاؤن سے مزدور طبقہ متاثر ہوگا۔ ہم نے لاک ڈاؤن کے ساتھ لوگوں کو بھوک سے بھی بچانا ہے۔ قوم سے کہتا ہوں کہ اس مشکل مرحلے میں ہمت نہیں ہارنی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ سخت لاک ڈاؤن نہ کرنے کی وجہ سے بڑی تنقید کی گئی، اس حوالے سے بڑا پریشر تھا۔ میں نے پہلے دن سے کہا کہ ملکی حالات کو دیکھ کر فیصلے کریں گے لیکن بار بار کہا جارہا ہے کہ حکومتی فیصلوں میں کنفیوژن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اگر کسی حکومت میں کنفیوژن نہیں تھی تو ہماری تھی۔ 13 مارچ سے لے کر اب تک ایک بیان بتا دیں جس میں تضاد ہو۔
بھارتی حکومت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کہا جارہا تھا بھارت کی طرح لاک ڈاؤن کرو لیکن امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ وہاں سخت پابندیوں کی وجہ سے غریب کچلا گیا مگر اس کے باوجود کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ لاک ڈاؤن سے نقصان ہوا۔ ترقی یافتہ ممالک بھی اتنے سخت اقدامات برداشت نہیں کرسکے۔ ہم نے اس کے مقابلے میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا۔ ابھی تک اللہ کا بڑا کرم ہے، تاہم اگلا فیز مشکل ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ عوام ایس او پیز پر عمل کریں کیونکہ اگر احتیاط نہ کی گئی تو ہسپتالوں پر پریشر بڑھے گا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں چار ہزار اموات ہوچکی ہیں۔ ہمارے پاس صرف دو راستے ایک احتیاط اور دوسرا بے احتیاطی کا ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ ایس او پیز پر عمل درآمد کرائیں۔
ملکی معاشی صورت حال پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اقتدار سنبھالا تو اکانومی کے برے حالات تھے، 20 ارب ڈالر کا خسارہ تھا، اس کے علاوہ درآمدات اور برآمدات میں بھی تضاد تھا جب کہ مہنگائی کا بھی مسئلہ تھا۔ اس کے ساتھ کورونا کی وجہ سے بھی اسے فرق پڑا۔ عجیب لگا جب کہا گیا کہ اس معاملے میں حکومت کورونا کے پیچھے چھپ رہی ہے۔ آج آئی ایم ایف نے بیان جاری کیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے دنیا کی اکانومی کو بارہ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ سو سال کے اندر یہ بڑا بحران آیا ہے۔
اپوزیشن کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ قرضہ اس لیے مانگ رہے تھے کیونکہ ملک دیوالیہ ہونے جارہا تھا۔ یہ ہماری وجہ سے نہیں تھا، یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ سابق حکومتوں کی وجہ سے قرضے مانگے۔ اپنے ملک کے ہسپتال بنانے کے لیے پیسے مانگتے ہوئے مجھے شرم نہیں آتی، مجھے شرم تب آئی جب دوسرے ملکوں سے قرضہ مانگا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سنبھالی تو 1200 ارب کا سرکلر ڈیٹ تھا۔ سابق حکومتوں میں توانائی کے منصوبوں کے معاہدے ہوئے لیکن ہم پھنس گئے۔ اس بوجھ کے ساتھ مجھے پاکستان ملا تھا لیکن جواب مجھ سے مانگا جارہا ہے، جو اس حال میں ملک کو چھوڑ کر گئے، ان سے جواب مانگا جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے سب سے پہلے کنسٹرکشن انڈسٹری کو کھولا۔ تعمیراتی صنعت کی خاطر آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 30 ارب جب کہ ایگری کلچر کے لیے 50 ارب روپے رکھے ہیں۔ دونوں شعبوں کو اوپر لے جانے کے لیے پورا زور لگائیں گے۔ اس کے علاوہ ہماری کوشش ہے کہ ایس او پیز کے ساتھ ٹورازم کو بھی کھولا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک پانچ ہزار ارب روپے قرض واپس کرچکے ہیں۔ یہ قرضے پچھلی حکومتوں نے لیے تھے۔ کورونا سے پہلے پچھلے دس سال سے زائد ہماری ایکسپورٹ بڑھ رہی تھی۔ 17 فیصد ٹیکس ہم نے اکٹھا کیا۔ نان ٹیکس ریونیو 33 فیصد بڑھا۔ فارن انویسٹمنٹ کو دگنا کیا۔ احساس پروگرام عام لوگوں کے لیے تاریخ کا بڑا پیکیج ہے۔ ہمارا پرائمری خسارہ ختم ہوگیا ہے۔ ہم نے وفاق اور صوبائی حکومتوں اور پہلی دفعہ افواج نے بھی اپنے اخراجات کم کیے۔