طالبعلم اور ان کی قسمت

ریحان تقی
سر میرے بیٹے کی تو قسمت ہی خراب ھے۔ کئی مائیں اپنے بیٹوں کے بارے میں اس طرح کے جملے میرے سامنے استعمال کرتی ہیں۔ اور میں انھیں سمجھاتا ھوں کہ ہر طالب علم  اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ اس کا Daily Routine ہی اس کے مسقبل کی تعمیر کر رہا ھوتا ہے۔
پہلے طالب علم پر غور کیجیے۔ وہ روزانہ صبح خود اٹھتا ھے۔ دن کا آغاز نماز سے کرتا ھے۔ وہ باقاعدگی سے اسکول جاتا ھے۔ ہر کام وقت پر کرتا ھے۔ روزانہ کھیلتا بھی ھے۔ گھر کے سودے بھی لاتا ھے۔ اسکول کو اس سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ اس کے تمام ٹیچرز اس سے خوش ہیں۔ یہ صرف امتحان کے دنوں ہی میں نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر پڑھائی کرتا ھے۔  اپنے کورس کے علاوہ اسے اخبارات اور دیگر معلوماتی کتابیں پڑھنے کا بھی شوق ھے۔ اپنی کلاس کے بچوں کی مدد بھی کرتا ھے۔ اس نے اپنے مقصد کا تعین کر رکھا ھے۔ وہ الیکٹریکل انجینیر بننا چاہتا ھے۔
دوسرے طالب علم پر غور کیجیے۔
یہ کبھی صبح خود اٹھ جاتا ھے اور کبھی اسے اٹھانا پڑتا ھے۔ یہ بھی روزانہ اسکول جاتا ھے۔ لیکن یہ اتنا ہی کام کرتا ھے جتنا اسکول میں کروایا جاتا ھے۔ اسے نہ اخبارات پڑھنے کا شوق ھے اور نہ ہی کوئی اور کتابیں۔ اس کی کارکردگی کا گراف اوپر نیچے ھوتا رہتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ کبھی کبھار اس کے والدین کو اسکول بلایا جاتا ھے۔اسے پڑھائی کا شوق نہیں۔ گھر والوں کو اس کے پیچھے لگنا پڑتا ھے۔ اس کے پاس کوئی واضح مقصد نہیں کہ اس نے آگے کیا کرنا ھے۔ روزانہ کا کام روزانہ نہیں کرتا۔ اسی طرح کھیلنے کا بھی کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار گھنٹوں کھیلتا رہتا ھے۔
تیسرے طالب علم کو دیکھیں۔
ہر روز صبح والدین کو اسے زبردستی اٹھانا پڑتا ھے، کیونکہ یہ رات کو دیرتک جاگتا رہتا ھے۔ یہ اسکول جانا ہی نہیں چاہتا۔ ہر روز اسکول نہ جانے کے بہانے بناتا ھے۔ اسکول جا کر بھی اونگھتا رہتا ھے اور اپنی نیند پوری کرنے کی کوشش کرتا ھے۔ اس کی وجہ سے پورے گھر کا ماحول خراب ھے۔ یہ کسی کی نہیں سنتا۔ اسے اچھا کھانا چاہیے۔ اچھے کپڑے چاہیے۔ بائیک اور پٹرول کے پیسے بھی چاہیے۔ چھوٹے بہن بھائیوں پر رعب جماتا ھے۔ کبھی کبھار تو گھر سے اسکول کے لیے نکلتا ھے لیکن اسکول جانے کے بجاۓ آوارہ دوستوں کے ساتھ گھومنے نکل جاتا ھے۔ اسکول کا ٹائم پورا کر کے گھر پہنچ جاتا ھے۔ یہ ماں کی بالکل بھی نہیں سنتا۔ اپنی لاپرواہی کی وجہ سے یہ پڑھائی میں بہت کمزور ھو گیا ھے۔ ہر سال دھکے سے پاس کروایا جاتا ھے۔ اسے نہ گھر والوں کی فکر ھے نہ اپنے مستقبل کی۔ کلاس میں آوازیں نکالتا ھے۔ گالیاں بھی خوب دیتا ھے۔ لڑائی جھگڑے کا ماہر ھے۔ جب کبھی گھر والے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ گھر سے بھاگ جانے کی دھمکی دیتا ھے۔ اس کے گھر والے اس کا محلہ اور اس کے اسکول والے سبھی اس سے تنگ ہیں۔
میرا واسطہ ان تین قسم کے طالب علموں سے پڑتا رہتا ھے۔
 پہلی قسم کے طالب علم کا مستقبل شاندار ھے۔ وہ یقینی طور پر اپنے مقصد میں کامیاب ھو جاۓ گا۔ یہ کہنا غلط ھو گا کہ اس  کی قسمت اچھی ہے بلکہ وہ محنت کر کے اپنی قسمت کو اچھا بنا رہا ھے۔
دوسری قسم کا طالب علم کامیابی اور ناکامی کے بیچ میں ھے۔ اگر والدین اور اسکول اس پر بھر پور توجہ دیں تو اس کی زندگی کو تبدیل کیا جا سکتا ھے۔
تیسری قسم کا طالب علم سب کے لیے  ایک چیلنج ھے۔ اسے سدھارنے کے لیے کافی محنت کرنا ھوگی کیونکہ وہ اخلاقی اور تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ھے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کی قسمت اچھی ھو تو ابتدائی کلاسوں ہی سے اس پر بھر پور توجہ دیجیے۔
اچھی تعلیم وتربیت بچے کی قسمت بدل سکتی ھے۔
آپ اور اسکول مل کراپنے بچے کے مستقبل کو شاندار بنا سکتے ہیں۔بصورت دیگرآپ کے بچے کی زندگی کافی تنگ ہوگی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔