مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ دینے والا عظیم سندھی جرنیل
سندھ کے عظیم ہیرو ہوش محمد شیدی سے متعلق خصوصی تحریر
سندھ میں ایک جنرل ایسا بھی گزرا ہے، جس کیلئے سندھ کا انگریز حکمران سر چارلس نیپئر برٹش کمانڈر انچیف لکھتا ہے، ’’اس کالے بہادر سندھی نے ایک جرنیل کی عسکری صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اگلی صفوں میں بار بار حملے کرتا رہا اور جب وہ فتح حاصل نہ کر سکا تو ہاتھ میں تلوار لئے ایک قدم پسپا ہوئے بغیر مارا گیا۔ اس جنرل کا نام ہوش محمد شیدی تھا، عرف ہوشو شیدی۔‘‘
حیدرآباد شہر سے تقریبا 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہالہ روڈ پر میانی فاریسٹ کا علاقہ ہے، جہاں پہلے کبھی غیرت مند سرخ خون گرا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہزاروں وطن پرستوں نے اس سر زمین کو اپنے خون سے سینچا تھا۔ آج اگر آپ وہاں جائیں تو سرخ اور دیگر رنگوں کے گلاب کھلتے ہیں، ہر طرف پھولوں کی خوشبو مہکتی ہے۔ جنرل چارلس نیپئر اپنی کتاب ’سندھ کے فاتح‘ میں لکھتے ہیں، ’’جب حیدرآباد کی جنگ ہو رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص بے جگری سے لڑ رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے بنا ہی جنگ کے لیے ہے۔ اس کی جنگ کا انداز دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے نپولین کی فوج کا تربیت یافتہ سپاہی لڑ رہا ہے۔ 1843 کا دور تھا جب انگریز نے حیدر آباد کی طرف پیش قدمی کی۔ اس وقت وہاں تالپوروں کی حکومت تھی اور کچھ لوگوں نے ان کا مقابلہ ڈٹ کر کیا تھا۔ گوکہ وہ جیت نہ سکے مگر انہوں نے بے جگری سے لڑتے ہوئے اپنی ذات کو ہمیشہ کیلئے امر کردیا۔ انہی میں سے ایک جنرل ہوش محمد شیدی بھی تھا، جن کو لوگ آج بھی ہوشو شیدی کے نام سے سے یاد کرتے ہیں۔‘‘ چارلس ولیم نیپئر لکھتے ہیں کہ ’’یہ وہ بندہ ہے، جس کو میانی کی جنگ، دوبے کی جنگ اور حیدرآباد کی جنگ میں دیکھا گیا۔ جنگ کی تاریخ فاتح لکھتا ہے یا پھر حریت پسند اور مفتوحہ قومیں اس کو یاد کرتی ہیں۔ ولیم نیپئر نے اس جنرل کو بہت ہی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جنرل ہوش محمد شیدی (قمبرانی) اس نسل سے تعلق رکھتا تھا جو افریقہ سے نقل مکانی کرکے یا پھر غلاموں کی صورت میں مختلف ممالک میں بیچے جاتے تھے۔
مورخین کے مطابق ہوش محمد شیدی کی والدہ میر فتح علی تالپور کی حویلی کی نگراں تھیں۔ جب میر فتح علی تالپور کے ہاں 1801 میں میر صوبیدار پیدا ہوئے، اسی وقت ہوش محمد شیدی کی بھی ولادت ہوئی۔ ہوش محمد، میر صوبیدار کے ہم عمر تھے۔ بعد ازاں انہی کے لشکر کے سپہ سالار بنے۔ ہوشو شیدی نے ایک نعرہ بلندکیا تھا کہ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ یہ نعرہ سرائیکی زبان میں ہے، کیونکہ جب انگریزوں نے سندھ پر حملہ کیا تو اس وقت تالپوروں کی حکومت تھی جو سندھی اور سرائیکی زبانیں بولتے تھے۔ سرائیکی زبان بہت کثرت کے ساتھ سندھ میں بولی جاتی تھی اور اس وقت بھی سندھ میں سرائیکی بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ ہوش محمد جسے ’’ہوشو‘‘ کہا جاتا تھا اس کا تعلق شیدی قوم سے تھا۔ شیدی قوم سندھ میں کئی صدیوں سے آباد ہے۔ وہ افریقی جیسے لگتے ہیں، شاید ان کے آباؤ اجداد کئی صدیاں پہلے سندھ میں آئے ہوں۔ اس وقت بھی اس نسل کے لوگ سندھ میں ایک اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ اس وقت بھی حیدرآباد کے قریب ایک شیدی گاؤں ہے جہاں پر ہوشو کے خاندان کے لوگ بستے ہیں، جنہیں سندھ سے بے حد محبت ہے اور ان کی سندھ سے محبت لازوال ہے۔ ہوشو کے والد کا نام سبھاگو اور ماں کا نام دائی تھا، جب کہ اس کے بھائی کا نام نصیبو اور بہن کا نام سیتاجی تھا۔ تاریخ میں ہوشو کے بارے میں کچھ باتیں مختلف ہیں اور خاص طور پر اس کے جنم کے بارے میں اور اس کی قبر کے بارے میں۔ بہر حال کہتے ہیں کہ ہوشو میر فتح علی ٹالپر کے گھر میں ہی پیدا ہوئے تھے کیونکہ ان کی والدہ میر کے گھر کے نظام کو چلانے میں خاص اہمیت رکھتی تھی اور اس کے پاس گھر کے ہر تالے کی چابی ہوتی تھی۔ ہوش محمد پیدا ہوئے تو ان کی پرورش بھی تالپور کے گھر میں ہوئی اور انہیں گھر کا فرد سمجھا جاتا تھا۔ جب وہ جوانی میں داخل ہوئے تو انہیں فوج میں بھرتی کیا گیا۔ ان کی کارکردگی اور وفاداری کو دیکھتے ہوئے اسے جلد ہی ایک پلاٹون کا انچارج بنا دیا گیا۔ ہوشو اپنی بہادری کے کارنامے دکھاتے دکھاتے جنرل کے عہدے تک پہنچ گیا، کسی نے لکھا ہے کہ ہوشو کا خاندان افریقہ سے آیا تھا اور وہ مسقط آرمی میں تھے جہاں پر انھوں نے لڑائی میں مہارت حاصل کی اور اس پر عبور پایا۔
کہتے ہیں جب نپولین کے ساتھ لڑائی ہوئی تو وہ اس میں بھی شریک ہوئے تھے، جس کے لیے انھیں مصر بھیجا گیا تھا، جیسا کہ مسقط کے سلطان سے ٹالپروں کی دوستی تھی اور وہاں پر جب انھوں نے ہوشو کو دیکھا تو سلطان سے اسے خرید کر سندھ لے آئے لیکن یہ حقیقت صحیح نہیں لگتی کیوںکہ شیدی قبیلہ سندھ میں صدیوں سے آباد ہے اور ان کے پچھلے اور اگلے سب سندھی بولتے رہے ہیں اور اس وقت بھی بڑی تعداد یہاں پر آباد ہیں جن کا کہناہے کہ ہوشو یہیں پیدا ہوئے تھے۔ میر صوبیدار تالپور نے انگریزوں سے دوستی بڑھائی اور ان سے کافی معاہدے بھی کئے جو ہوش محمد کو اچھے نہیں لگتے اور انہوں نے کئی بار میر صوبیدار سے اس کا ذکر کیا مگر انہوں نے ہوش محمد کے مشوروں پر کان نہیں دھرا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تالپور خاندانوں میں پھوٹ پڑ گئی اور انگریزوں نے اس کا دائرہ اٹھاتے ہوئے 11 جنوری 1843 میں سندھ پر حملہ کر دیا اور فتح کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور میر صوبیدار کو گرفتار کرکے قید کرلیا۔ ہوش محمد کو سندھ کی سرزمین پر انگریزوں کا قبضہ منظور نہیں تھا اسلئے ہوشو میرپور خاص پہنچ گیا اور میرپور خاص کے والی شیر محمد تالپور کو مدد دینے پہنچ گیا اور شیر محمد تالپور بھی ہوشو کے آنے سے زیادہ طاقت محسوس کرنے لگا ۔اب یہ فیصلہ ہوا کہ کسی بھی صورت میں سندھ کو انگریزوں کے قبضے سے آزاد کروانا ہے۔ ہوشو اور شیر محمد اپنی فوج کے ساتھ حیدرآباد کی طرف 10 مارچ 1843 کو نکل پڑے۔ جب 23 مارچ 1843 کو ہوشو پھلیلی واہ کراس کر کے وہاں پہنچے تو دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئیں۔ ہوش محمد خود تلوار لے کر انگریزوں کی فوج میں گھس گئے اور بڑی بہادری سے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کرلیا۔ اب یہاں دو رائے ہیں کہ ہوش محمد شیدی کی وہیں چھنڈو ناریجو کے پاس تدفین کی گئی۔کچھ کا کہنا ہے کہ اسے حیدرآباد کے پکے قلعے مکمل اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی۔ اب تک سندھ کے تاریخ دان اور محقق اس بات پر متفق نہیں ہو سکے ہیں کہ ان کی قبر کہاں ہے۔ مشہور تاریخ دان ڈاکٹر کلیم لاشاری کے مطابق 1960کی دہائی میں بہت سے لوگوں کو شوق ہوا کہ ہوش محمد کی قبر کو ڈھونڈ نکالا جائے۔ اس دوران کچھ لوگ 24 مارچ 1843 کی حیدرآباد کی جنگ کی جگہ پہنچے۔ یہ علاقہ اب چھنڈو ناریجو کا گاؤں کہلاتا ہے۔ جہاں کے لوگوں نے بتایا کہ ہوش محمد کی قبر گاؤں کے قریب ہے۔ اب یہ بات ان لوگوں کے لیے بحث کا موضوع بنی کہ سندھی فوج کے بہادر سپاہی جن کو انگریزوں نے حیدر آباد کے قلعے میں دفن کیا، وہ کون ہیں ؟
بھی یہ بحث جاری تھی کہ کیپٹن معین نے ایک مقالہ چھاپ دیا جس میں انہوں نے بہت محنت اور تگ ودو کرکے یہ ثابت کیا کہ حیدر آباد کے قلعے میں جس مجاہد کی قبر ہے وہ ہوش محمد کی ہے۔ کیپٹن معین کے مطابق ہوش محمد، میر جان محمد تالپور اور میر محمد خان تینوں نے ولیم نیپئر کے خلاف داد شجاعت دی تھی، جو حیدرآباد کی جنگ میں مارے گئے تھے۔ اب آپ دیکھتے ہیں کہ دونوں کی قبریں، جن میں تدفین عزیز و اقارب نے کی ہیں جو موجود ہیں تو پھر تیسرے یقیناً ہوش محمد ہی ہونگے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ یہ تو ایسی بات ہے جو منطقی ہے۔ ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جو قبر قلعے میں ہے وہی ہوش محمد کی ہے۔ جبکہ جان جیکب، جن کے نام سے سندھ کا شہر جیکب آباد مشہور ہے، نے بھی سندھ کی تاریخ کے حوالے سے لکھا ہے۔ جب وہ حیدرآباد میں تعینات تھے۔ ان کے مطابق ہوش محمد شیدی کی کی تدفین چھنڈو ناریجو میں ہوئی مگر ڈاکٹر کلیم لاشاری کا کہنا ہے کہ "جان جیکب نے جب یہاں کا دورہ کیا تو انہوں نے اپنی کتاب میں کوئی تاریخی حوالہ نہیں دیا۔ ان کا دورہ کوئی اسی پچاسی سال کے بعد ہوا۔ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری نے مزید کہا کہ ان کی اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ جو قبر حیدرآباد کے قلعے میں ہے، وہی ہوش محمد شیدی کی قبر ہے اور ان کی وفات کا دن 24 مارچ ہے۔
یہ بحث تب تک چلتی رہے گی جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ ان کی قبر کا اصل مقام کون سا ہے ؟ یہ فیصلہ تاریخ دان اور محققین کریں گے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے اپنے ہیروز کی زندگی اور ان کی جہدوجہد سے مکمل آنکھیں بند کرکے رکھی ہوئی ہیں 1947 سے لیکر اب تک اس ضمن میں کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے ۔انگریزوں نے اپنے مرنے والے سپاہیوں کی خدمات کے عوض کئی یادگاریں تعمیر کروائی جہاں ان کے اہل خانہ ہر سال جاکر ان کی یاد میں تقریبات منعقد کرواتے ہیں اور وہاں کا سارا خرچہ اور بندوبست انگریز سرکار کرتی ہے ، ایک ہم ہیں جو اپنے ہیروز کو فراموش کرکے بیٹھے ہیں۔