ہیموفیلیا اور ہمارا نظامِ صحت

راحیل وارثی

ملک میں صحت کی صورت حال کسی طور تسلی بخش نہیں ٹھہرائی جاسکتی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کرونا وائرس دُنیا بھر کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں اس کی تیسری لہر اپنی تباہ کاریاں مچارہی ہیں۔ پچھلے چند ایام سے روزانہ ہی 100 یا اس سے زائد افراد کرونا وبا کے باعث اپنی زندگی سے محروم ہورہے ہیں۔ نئے کرونا کیسز بھی لگ بھگ تیزی سے بڑھے ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں پر مریضوں کا حد درجہ بوجھ ہے اور خدانخواستہ مزید تیزی سے کرونا کے متاثرین میں اضافہ ہوا تو صحت کا نظام بُری طرح بیٹھ کر رہ جائے گا۔ اس لیے عوام النّاس کو چاہیے کہ باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال لازمی کریں۔ ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال باقاعدگی کے ساتھ کریں۔ سماجی فاصلے کے اصول کو ہر صورت اختیار کریں۔ رش کی جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں۔ کرونا ایس او پیز کی سختی سے پاسداری کریں۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو سرزمین پاک میں امراض کے پھیلائو کے حوالے سے حالات خاصے موافق ہیں۔ خالص خوراک دستیاب ہے نہ ماحول انسان دوست ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی بازار چلے جائیں، خالص اور معیاری خوراک ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ اس کے علاوہ بدترین آلودگی کی صورت حال ملک کے اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں درپیش رہتی ہے۔ گندگی اور غلاظت کا راج بیشتر مقامات پر قوم کا مقدر ہے۔ دھواں چھوڑتی گاڑیاں اور فیکٹریاں، کارخانے آلودگی کو بے پناہ بڑھاوا دیتے ہیں۔ یہاں صوتی، آبی آلودگیاں بھی کافی نقصان کا موجب ثابت ہورہی ہیں۔ یہاں امراض کے پنپنے کے بے پناہ مواقع ہیں۔ اسی لیے کینسر، ہیپاٹائٹس، ٹی بی، فالج، امراض دل، گردہ اور دیگر بیماریاں تیزی کے ساتھ پھیل رہی اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔
اگر ہیموفیلیا کی بات کی جائے تو یہ انتہائی خطرناک مرض ہے، اس سے متاثرہ فرد کی زندگی کسی اذیت سے کم نہیں، اس کا خون مسلسل بہتا رہتا ہے اور رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ 17 اپریل کو پاکستان سمیت دُنیا بھر میں اس بیماری سے بچائو کا عالمی دن منایا جائے گا، جس کا مقصد اس مرض کے متعلق شعور اجاگر اور آگہی فراہم کرنا ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کو زندہ رہنے کے لیے خون سے لیے گئے پلازمے کی ضرورت پڑتی ہے، ان میں ایسے پروٹین کی کمی واقع ہوجاتی ہے، جو خون جمانے کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، اس میں مبتلا افراد کے معمولی چوٹ یا زخم لگ جانے کی صورت میں اس حصّے سے خون بہنے لگتا ہے اور وہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بھر میں اس میں مبتلا افراد کی تعداد 5 لاکھ ہے۔
ہیموفیلیا جان لیوا بیماری ہے، لیکن ابتدا میں تشخیص، بروقت اور مسلسل علاج سے اس کے مریض عام انسانوں کی طرح صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن اس کے علاج پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ اُمرا تو اپنا علاج ملک اور بیرون ممالک کے بہترین ہسپتالوں سے کسی نہ کسی طرح کروا ہی لیتے ہیں لیکن غریب عوام کے لیے اس مرض کا علاج کرانا ممکن ہی نہیں اور بدقسمتی سے ملک عزیز میں ہیموفیلیا کے مرض میں مبتلا افراد کی اکثریت بھی غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے، مہنگائی کے اس دور میں جن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا دُشوار ترین امر بن گیا ہو، وہ بھلا ہیموفیلیا سمیت دیگر سنگین امراض کا علاج کرانے کے کیونکر متحمل ہوسکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت اس بیماری سمیت دیگر امراض پر قابو پانے اور ان کے خاتمے کے لیے سنجیدگی سے کام کرے، علاج کی مناسب سہولتیں ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں بلاامتیاز عوام کو فراہم کی جائے۔
ہیموفیلیا پر ہی کیا موقوف یہاں دیگر کئی خطرناک امراض میں اضافے کا سبب آگہی کے فقدان کو ہی ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ صوبوں کے محکمۂ صحت میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کی خبریں وقتاً فوقتاً میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔ بدقسمتی سے ان بے قاعدگیوں پر قابو پانے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ دوسری طرف ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں عوام کو علاج کی وہ سہولتیں دستیاب نہیں جو اُن کا حق ہیں۔ ہمارے ہاں موذی امراض کی روک تھام کے لیے کبھی بھی سنجیدگی سے اقدامات نہیں کیے گئے۔ حکومت کو ہیمو فیلیا سمیت تمام موذی بیماریوں کے حوالے سے آگہی کا دائرۂ کار بڑھانا چاہیے، ان کی روک تھام کا مناسب بندوبست کرنا چاہیے۔ عوام کی صحت کو اولیت دینی چاہیے۔ بجٹ میں سے صحت کے لیے مناسب حصّہ مختص کیا جائے، ہسپتالوں میں علاج معالجے کی مناسب سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ سب سے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ ملک کے طول و عرض میں نئے سرکاری ہسپتالوں کے قیام کی جانب قدم بڑھائے جائیں اور ان کی تعداد آبادی کے تناسب سے معقول حد تک لائی جائے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔