حسینہ معین : خواتین کے حق میں اٹھنے والی پہلی توانا آواز

زاہد حسین

ایک وقت تھا جب قلم کار کا کام معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا، معاشرے کو لاحق مرض کی تشخیص اور اس کا علاج تجویز کرنا ہی تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن انیس سو ستر کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کے پلیٹ فارم سے متعارف ہونے والی ایک لکھاری نے اس خیال کو اپنے قلم سے یکسر تبدیل کردیا۔ اس لکھاری کو دنیا حسینہ معین کے نام سے جانتی ہے۔ حسینہ معین نے اپنے قلم سے نہ صرف معاشرے کی دکھتی رگ تلاش کی اور اس کے مرض کی تشخیص و تجویز علاج میں اپنا کردار ادا کیا، بلکہ اپنے قلم کی سیاہ روشنائی سے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ایسے کھیل لکھے جس نے خواتین کی زندگی میں روشنی کی کرن جگادی۔ انیس سو ستر کی اوائلی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت اور پاکستان ٹیلی وژن سے جو فلمیں اور ڈرامے پیش کیے گئے، ان کی ہیروئن روتی دھوتی، صبر و رضا کا پیکر نظر آیا کرتی تھی۔ حسینہ معین کی آمد کیا ہوئی کہ پی ٹی وی کے ڈرامے کی ہیروئن یکسر تبدیل ہوگئی۔ سنجیدہ، فرماں بردار خاموش اور دبی ہوئی ہیروئن کی جگہ ایک شوخ و چنچل، باہمت اور نڈر لڑکی نے لے لی۔

خواتین کو طاقت دینے والی اس عظیم لکھاری کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کراچی آرٹس کونسل میں ایک بڑی تعزیتی تقریب منعقد ہوئی۔ سابق جنرل مینیجر پی ٹی وی محمد ظہیر خان، اداکار شکیل، منور سعید، طلعت حسین، بہروز سبزواری، ثانیہ سعید اور ساجد حسن سمیت ٹی وی فنکاروں کی بڑی تعداد حسینہ معین کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تقریب میں موجود تھے۔ تعزیتی ریفرنس میں اردو شاعری میں اپنی پہچان رکھنے والے افتخار عارف اور کشور ناہید نے حسینہ معین کی یادیں حاضرین کے ساتھ شیئر کیں اور حسینہ معین کو خراج عقیدت پیش کیا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ حسینہ معین کے کھیلوں کی خاص پہچان یہ تھی کہ انہوں نے صرف خواتین کو طاقتور نہیں دکھایا بلکہ معاشرے میں مردوں اور خواتین کے کردار کو متوازن بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ 

صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی حاصل کرنے والے نامور ادیب اسد محمد خان نے معروف پنجابی صوفی شاعر بابا فرید کے کلام کے ذریعے حسینہ معین کو خراج عقیدت پیش کیا۔ 

معروف میزبان مہتاب اکبر راشدی نے حسینہ معین کو خواتین کے لئے ہمت کی علامت قرار دیا اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ موجودہ دور کی خواتین حسینہ معین کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کرے۔
آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ نے ایک ہال کو حسینہ معین کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا، جس کی تائید تمام شرکا نے کی۔ اپنے خطاب میں احمد شاہ نے حسینہ معین کی تخلیقی صلاحیتوں اور آرٹس کونسل میں ان کے فعال کردار پر روشنی ڈالی۔ ان کے خطاب کے بعد حسینہ معین کے متعلق ایک چھوٹی سی دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی، جس میں ان کے لکھے ہوئے تمام کھیلوں کی جھلکیاں بھی شامل تھیں۔ اس مختصر دستاویزی فلم میں تئیس مارچ کو آرٹس کونسل کراچی میں ہونے والے یوم پاکستان کے دوران حسینہ معین کے آخری خطاب کی کچھ جھلکیاں بھی دکھائی گئیں۔

تعزیری ریفرنس سے قبل آرٹس کونسل کراچی میں مرحومہ کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ریفرنس کا اختتام دعا پر ہوا۔ آرٹس کونسل کی لائبریری کمیٹی کے چیئرمین اور پی ٹی وی میں حسینہ معین کے ریرینہ ساتھی اقبال لطیف نے دعا کی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔