آیا صوفیہ (گرجا گھر/مسجد/عجائب گھر)

سہیر عارف

آیا صوفیہ ایک تاریخی ورثہ جو ٥٣٧ ع میں رومن شہنشاہ جسٹنین کے دور میں تعمیر ہؤا اور ٩٠٠ سال تک عیسائی گرجا گھر رہا اور پھر ١٤٥٣ع میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سُلطان مَحمَت (فاتح) کے حُکُم پر اِس گرجے کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا اور پھر ٥٠٠ سال تک اِسی طرح رہا حتیٰ کہ سَلطنت عُثمانیہ کے اختتام  کے کچھ سالوں بعد اَتا تُرک مصطفیٰ کَمال پاشا کے حُکم پر اِس مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا.

اب پہلے ہم اِس چیز کے بارے میں جان لیتے ہیں کہ سلطان مَحمَت (فاتح) کا گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط!

نبی (علیہ السلام) اور صحابہ کے دور میں  مسلمانوں نے بہت سی فتوحات حاصل کیں، لیکن کبھی بھی کسی نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ ہی اُس پر قبضہ کر کے اُسے مسجد کی حیثیت دی بلکہ اسلام نے ہمیشہ غیر مُسلموں کو اور اُن کی عبادت گاہوں کو حفاظت فراہم کرنے کی تعلیمات دیں،
اور اِس بارے میں حضرت عُمر (رض) کا واقعہ مشہور ہے جب وہ یروشلم کی فتح کے بعد وہاں کے اَمیر (حاکِم) کے بلانے پر یروشلم کی چابیاں لینے گئے اور اُسی دوران جب نماز کا وقت ہؤا تو پادری نے گرجے میں ہی نماز پڑھنے کا کہا تو عُمر (رض) نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ مجھے ڈر ہے کہ بعد میں مسلمان یہ کہ کر اِس جگہ پر قبضہ نہ کر لیں کہ مسلمانوں کے خلیفہ نے یہاں نماز پڑھی تھی، پھر آپ (رض) نے اُس جگہ نماز پڑھی جہاں سے نبی (علیہ السلام) معراج کے سفر پر آسمانوں کی طرف گئے تھے.

عثمانی سُلطان مَحمَت (فاتح) نے ایسے اور بھی کام کیے جس کی اسلام میں گنجائش نہیں، اُن ہی میں سے ایک گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کرنا تھا۔ اِس وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہمیشہ گرما گرمی کا عالَم رہا!
اور پھر جب مصطفیٰ کمال پاشا نے "آیا صوفیہ” کو میوزیم کی حیثیت دی جس کی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مُعاملات بہتر تو ہوئے، لیکن ایک عبادت گاہ کو عَجائب گھر میں تبدیل کرنا یہ بھی ایک غلط فیصلہ تھا، کیونکہ مَسجد میں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اور کمال اتا تُرک نے اُس کو سَیحَاتی مقام بنا دیا صرف اپنے سیاسی مفاد کے لیے.
لیکن معاملات اِسی طرح چلتے رہے اور یہ مسئلہ ہمیشہ زیرِ بحث رہا کہ آیا صوفیہ کو عجائب گھر ہی رہنے دیا جائے یا پھر سے اُسے مسجد کی حیثیت دے دی جائے، اور آخر کار تُرک حکومت نے آیا صوفیہ کو پھر سے مسجد کی حیثیت سے بحال کر دیا.

لیکن اِس میں بھی تُرک حکومت کے سیاسی مفاد کی بُو آتی ہے، کیونکہ تُرکی کے صدر رَجب طیّب اردگان نے جب اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا تو وہ آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کے شدید حامی تھے، لیکن جیسے جیسے اُن کا سیاسی مقام مضبوط ہوتا گیا تو وہ اِس معاملے میں نرمی کرتے گئے حتیٰ کہ کچھ سالوں پہلے اُنھوں نے یہ تک کہا کہ جو لوگ آیا صوفیہ کو مسجد بنانا چاہتے ہیں وہ پہلے مَسجد سلطان احمد خان جو آیا صوفیہ کے ساتھ ہی ہے اور تُرکی کی باقی مساجد کو تو نمازیوں سے بھر لیں جو نماز کے وقت خالی رہتی ہیں!
جب کسی سیاسی شخصیت کو اپنی مقبولیت میں کَمی کا یا خَتم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو یہ سیاسی شخصیات عوام کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، اور وہی طیّب اردگان نے بھی کیا، خود کو سیاسی طور پر مزید مُستحکم کرنے کے لیے اسلام اور مسلمانوں کے جذبات کا سہارا لیا.
لیکن اِس واقعہ سے یورپ میں ہل چَل مچ گئی ہے کیونکہ اس جگہ سے عیسائیوں کے جذبات بھی وابسطہ ہیں اور یہ ان کی ایک قدیم عبادت گاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

میری نظر میں تُرک حکومت کو یہ معاملہ چھیڑنا ہی نہیں چاہیے تھا اور اگر کوئی فیصلہ کرنا بھی تھا تو کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہیے تھا جس پر مسلمان اور عیسائی دونوں رضامند ہو جاتے، آیا صوفیہ کو عبادت گاہ میں تبدیل کرنے کا معاملہ ختم کر دینا چاہیے تھا! کیونکہ نہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لیے مسجدوں کی کَمی ہے اور نہ عیسائیوں کو گرجا گھروں کی، اور جس بات پر لوگوں میں انتشار اور فساد پھیلے اُس کو وہیں خَتم کر دینا چاہیے.

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔