ذہنی اذیت دینے والوں سے کیسے چھٹکارا پائیں؟

زاہر نور یوسفی 

زندگی میں ہم کتنے ہی لوگوں سے ملتے ہیں۔ گھر، خاندان، برادری، محلہ، دفتر اور سماج میں ہمارا کتنے ہی لوگوں سے روز واسطہ پڑتا ہے، مگر کیا ہمیں سارے لوگ اچھے لگتے ہیں؟ کیا سب سے ہماری بنتی ہے؟ کیا لوگوں کے رویے، معاملات اور باتوں سے کبھی ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی؟

ان تمام سوالات کے جوابات یقینا ”ناں” میں ہیں، کیوں کہ معاشرے میں ہمیں ہر شخص اچھا نہیں لگتا۔ ہمیں کوئی بہت پسند آتا ہے تو کوئی بالکل اچھا نہیں لگتا۔ ہر انسان سے ہماری گاڑھی نہیں چھنتی؛ وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ ہمارے ارد گرد سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے اور نہ ہی ہر انسان ہماری طرح ہوتا ہے۔ ہر انسان کی فطرت، شخصیت اورعادات دوسرے انسان سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آس پاس بہت ہی کم لوگ ہمارے دل کو بھاتے ہیں اور اکثر لوگوں سے ہمیں چڑ ہوتی ہے۔ ان کی باتوں، حرکتوں اور کرتوتوں سے ہمیں الجھن ہوتی ہے۔ کبھی کبھار یہ الجھنیں ہمارے لیے شدید ذہنی اذیت کا باعث ہوتی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ انسان اس قسم کی ذہنی کوفت سے کیسے بچے؟ ایک لمحے کیلئے یہ سوچ لیجیے کہ آپ کو کس قسم کے لوگ ناپسند ہیں؟ کن لوگوں کے ساتھ آپ ایک لمحے کو بھی جینا نہیں چاہتے؟ مثال کے طور پر آپ کو جھوٹے، مکار، عیار، چالاک، ڈیڑھ ہوشیار، خودغرض، مطلبی، مفاد پرست، موقع شناس، خود پسند، انا پرست، بے مروت اور بغض وعناد کے مارے لوگ بالکل نہیں پسند۔ بات کا بتنگڑ بنانے والے، نفرت پھیلانے والے، نان ایشو کو ایشو بنانے والے، بات بات پر بحث اور بے جا تنقید کرنے والے بھی نہیں پسند۔

اب آپ ان سب ”خصوصیات” کے حامل افراد کو اپنی نگاہوں کے سامنے لاکھڑا کیجیے۔ پہچان لیجیے کہ کون قسم کا شخص ہے۔ کس کی کس عادت سے آپ جھنجھلا جاتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ ایسے کس شخص کے ساتھ آپ کا تعلق کتنا گہرا ہے، کس کے ساتھ رشتہ کتنا ناگزیر ہے، کس سے کتنا پالا پڑتا ہے۔ اب جب آپ یہ سب کچھ طے کرلیں تو آپ کو اگلا فیصلہ کرنے میں بڑی آسانی ہوگی۔

اب کریں کیا ایسے لوگوں کا؟ ایسے افراد کے ساتھ کرنا کیا چاہیے؟ میرا خیال ہے، ایسے لوگوں سے نجات کا سب سے آسان  اور مؤثر طریقہ ان کو نظر انداز کرنا ہے۔ نظرانداز کرنا ایسوں کی سب سے بڑی سزا بھی ہے۔ ایسوں کا مکمل مقاطعہ کیجیے۔ ان کا خیال ہی ذہن میں نہ آنے دیں، یہ  فون کریں تو کال نہ اٹھائیں، ملنا چاہیں تو ٹال مٹول کیجیے، اچانک کہیں ٹکراؤ ہو تو ایسے روکھے انداز سے سامنا کیجیے کہ سلام کے بعد حال چال پوچھنے کا موقع ہی نہ ملے، کسی تقریب میں کہیں دور سے دِکھ جائیں تو ایسا ظاہر کیجیے کہ جیسے دیکھا ہی نہیں، فیس بک میسنجر پر ہیلو ہائے کریں تو آپ بھی اسی حد تک رہیں، کسی واٹس ایپ گروپ میں آپ کی پوسٹ پر نکتہ چینی کریں تو کرنے دیں، آپ جواب کوئی نہ دیں، یا پھر کسی اور بہانے آپ کے منہ لگنا چاہیں تو لگنے دیں، بس آپ لفٹ نہ کرائیں۔

اب اگر ایسے کچھ لوگوں سے واسطہ ناگزیر ہے تو اسے بھی محدود کرلیجیے۔ کام کے ساتھی ہیں تو دفتری امور تک اور خاندانی روابط یا محلہ داری ہے تو اس تعلق کو بھی وہیں تک ہونا چاہیے۔ اگر کبھی بادِلِ نخواستہ ساتھ  بیٹھنا پڑجائے تو جلدی سے بات کو سمیٹیے۔ مصروفیات کا تاثر دیجیے اور وہاں سے کھسک  لیجیے، بس کام سے کام رکھیے۔ بات سے بات  لمبی نہ ہونے پائے۔ ان سے متعلق باتوں کو بالکل بھی اہمیت نہ دیں، پھر دیکھیے، آپ کی کتنی جلدی ایسوں سے جان چھوٹ جائے گی۔

اگر آپ کے دل میں ایسوں کیلئے ہمدردی کے جذبات ہیں تو  جھٹک دیجیے، اصلاح کرناچاہتے ہیں تو یہ خیال بھی رہنے دیں، انہیں ٹھیک کرنے کا سوچ رہے ہیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے، کیونکہ  فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ خصلت  کا تعلق انسان کے خون، خاندان اور تربیت سے ہے۔ برسوں کی روش آپ مہینوں میں نہیں سدھار سکتے۔ اس کیلئے کسی بڑے جھٹکےکی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے جھٹکے دینا خدا کا کام ہے، آپ کا نہیں۔ 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔