باپ: مسیحا یا دشمن؟

تحریر: ارم مجید

باپ (اس لفظ میں جو تاثیر چھپی ہے اسے محسوس کرنا ،اس کی گہرائی کو سمجھنا ہر ایک کی بات نہیں ) اولاد تو اللہ پاک سب کو عطا کرتا ہے مگر وہ اولاد بہت کم اور نایاب ہوتی ہے جو باپ جیسے عظیم لفظ کے ساتھ انصاف کر سکے۔

میں آج باپ کے چند روپ اور رویوں کو تمام لوگوں کے سامنے بتانا چاہتی ہوں کہ ایک باپ کی موجودگی اور غیر موجودگی میں بچوں کی نفسیات، ان کی زندگی اور مستقبل پر کیا اثر ہوتا ہے۔ ایک باپ وہ ہوتا ہے جو بچوں کے ساتھ رہ کر ان کی تربیت و اخلاق کو سنوارتا ہے، ایک باپ وہ ہے جو بچوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اولاد کے لیے نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے تو دوسری جانب باپ کا ایک روپ ایسا بھی ہے کہ بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان کو معاشرے کا عظیم انسان نہیں بنا سکتا کیونکہ وہ بچوں کو بہت زیادہ لاڈ پیار دے کر ان کی زندگی کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ مگر آج جس باپ کی وجہ سے میں یہ آرٹیکل لکھنے پر مجبور ہوئی وہ باپ ایک مجرم باپ ہے۔

مجرم سے مراد لڑکوں کی ایسی تعداد جو خوشی خوشی گھر والوں کی پسندیا اپنی پسند کی شادی کرتے ہیں۔ کچھ مہینے تو اپنی بیوی کے ساتھ خوشی خوشی رہتے ہیں مگر دنیا کی رنگینیوں اور آسائشوں کی لت میں پڑ کر جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے خاطر ہر طرح کے جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جرم کی نوعیت کی بنا پر برسوں کے لیے قید کر دیے جاتے ہیں یا پھر سزائے موت اور عمر قید ان کا نصیب بن جاتی ہے۔

مرد جس لڑکی کو دلہن بنا کر لاتے ہیں وہ عورت حمل کے مراحل سے گزر کر بچے کی ولادت سے شوہر کی کمی کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے، مگر اس بیوی اور بچے کا کیا قصور ہے کہ بچہ باپ اور بیوی شوہر کی محبت سے محروم رہے۔ پھر وہ بچہ یا بچی ایک بیج کی مانند پودا بن کر پھول بن جاتے ہیں اور اپنے باپ سے ملاقات کے لیے آنے پر جیل کا دیدار کرتے ہیں۔ جیل میں ان بچوں کی ملاقات صرف اپنے باپ سے نہیں ہوتی بلکہ جیل کے تمام حالات اور واقعات، مختلف جرائم کے مجرم اور عوام کی خلقت سے ہوتی ہے۔ وہ معصوم بچے باغات، پارک، چڑیا گھر اور تفریحی مقامات کے بجائے اپنا زیادہ تر وقت باپ سے ملاقات کے ساتھ ساتھ ان تمام چیزوں کے سنگ گزارتے ہیں۔ اور انہیں باپ سے ملاقات کے ساتھ ساتھ تمام جرائم اور جرائم پیشہ افراد کا معلوم ہو جاتا ہے۔ اس طرح چند بچے تو ان حالات اور واقعات سے باہر نکل جاتے ہیں مگر کچھ کی نفسیات پر یہ تمام چیزیں حاوی ہوجاتی ہیں اور وہ جرم کے دلدل کے بے تاج بادشاہ بن کر ابھرتے ہیں۔

میری گزارش ہے کہ آپ جب شادی شدہ ہو جائے تو کسی بھی ایسی ایکٹیویٹی میں شامل نہ ہو جو آپ کے بچوں کی نفسیات اور ان کے مستقبل کو تباہ و برباد کر دیں ۔

آپ کا بچہ صرف آپ کا بچہ نہیں بلکہ معاشرے کا ایک ایسا انمول ہیرا ہوتا ہے جو پورے معاشرے کو بدل کر رکھ دیتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب اس کی تربیت بہتر طور پر کی جائے گی ۔لہذا جرائم کی دنیا سے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے ہونے والے بچوں اور موجودہ بچوں کو بھی دور رکھیں کیونکہ آج ان بچوں کو جرائم سے دور رکھیں گے تو کل یہ بچے شادی شدہ ہو کر اپنے بچوں کی طبیعت بہتر طور پر کر سکیں گےتو کل یہ بچے اپنے عزیزواقارب ،بہن بھائی اور اپنے بچوں سے دور ہونے سے بچ جائیں گے ۔۔کیوں کہ: باپ جیسی نعمت دنیا میں کہاں ہے۔۔ حاصل ہو یہ نعمت تو جہاں جنت سے کم نہیں

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔