پاکستان کے مشہور مصنفین

تحریر: منزہ خان

اردو ہماری قومی زبان ہے اور پاکستان میں اس زبان سے محبت کرنے والے بے شمار افراد موجود ہیں جنہوں نے اپنی محنت سےاس کو منفرد مقام دلوایا ہے اور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اسے چار چاند لگا دیئے ہیں۔

پاکستان نے بہت سے نامور شاعر ، مصنف اور اردو ادب کے چاہنے والوں کو پیدا کیا ہے۔ پاکستان کے مصنفین کی بات کی جائے تو اس میں علامہ اقبال، ابوالاعلیٰ مودودی، ابن صفی، انور مقصود، احمد ندیم قاسمی، نمرہ احمد، سمیرا حمید سمیت بے شمار نام شامل ہیں، جن میں سے پانچ مشہور مصنفین کا ذکردرج زیل ہے۔

مستنصر حسین تارڑ

دنیائے ادب میں مستنصر حسین تارڑ کے نام کے تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ عوام میں بہت سارے حوالوں کے لئے جانے جاتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ اردو کے ممتاز مصنف، ڈرامہ رائٹراور اداکار ہیں۔ آپ ۱۹۳۹ میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ مستنصر حسین تارڑ دنیا کے مختلف حصوں میں سفر کرنے اورمختلف ممالک کے لوگوں کے طرز عمل اور رویوں کا مشاہدہ کرنےکے خواہشمند رہے ہیں۔ اسی لئےآپ کی تصانیف میں سفر ناموں کی تعداد زیادہ ہے۔ آپ نے یورپ کے سترہ ممالک کا سفر کیا اور پھراس سفر میں کئے جانے والے مشاہدوں کو ایک کتاب کی شکل دینے کاارادہ کیا۔ جس کے نتیجے 1970 میں آپ نے سفرنامہ ’نکلے تیری تلاش میں‘ کے نام سے اپنی پہلی کتاب لکھی اور یہیں سے آپ کی ادبی زندگی کاآغاز ہوا۔ آپ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں،جن میں سفر ناموں سمیت ناول اور مختصر کہانیوں کا مجموعہ بھی شامل ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کتابوں کے ساتھ ساتھ مختلف پاکستانی ڈرامے بھی تحریر کر چکے ہیں جو عوام میں بہت مقبول ہوئے اوراسی وجہ سے آپ ڈرامہ انڈسٹری کا بھی ایک بڑا نام ہیں۔آپ کے لکھے ہوئے بہترین ڈراموں میں پرندہ، فریب، ہزاروں راستے سمیت بہت سےڈراموں کے نام شامل ہیں۔ آپ کی بہترین کارکردگی کی وجہ آپکو بہت سے اعزازات حاصل ہیں۔ جن میں حکومت پاکستان کی طرف سےملنے والے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ برائے ادب اور ستارہ امتیاز شامل ہیں۔ اسکے علاوہ آپ انجمن فروغ اردو قطرکا اعزاز بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔ اپنے کیریئر کے دوران آپ مختلف اخبارات میں کالم نویسی کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں جن میں ڈان اورروزنامہ آج سمیت بہت سےاخبارات شامل ہیں۔ آج کل بھی آپ کالم نویسی کرتے اور مختلف ٹی وی چینلز پر تجزیہ نگاری کرتے نظر آتے ہیں۔ غرض مستنصر حسین تاڑرکو لیونگ لیجنڈ کہنا کچھغلط نہ ہوگا۔

اشفاق احمد

اشفاق احمد پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ڈراما نویس، ناول نگار، مترجم اور براڈ کاسٹرتھے۔آپ ۲۲ اگست ۱۹۲۵ کو ہندوستانی پنجاب میں پیدا ہوئے اورتقسیم کے بعد۱۹۴۷میں لاہورآگئے لاہور سےہی اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔اشفاق احمد بچپن ہی سے لکھنے کا شوق رکھتے تھےآپ بچوں کےمضامین پر کہانیاں لکھتے تھے جو بچوں کے ہی رسالے میں شائع ہوتی تھی۔اشفاق احمدبلاشبہ ایک مایاناز مصنف تھے۔آپ نے اپنی زندگی میں تیس سے زائدکتابیں لکھیں۔آپکی بہترین اصناف میں زاویہ،ایک محبت سو افسانے،منچلے کا سودہ،بندگلی اور توتا کہانی سمیت بہت سی کتابوں کے نام شامل ہیں۔اسکے علاوہ آپ نے بہت سے پاکستانی ڈرامے بھی لکھے جس نے آپکی شہرت کو مزید بڑھایا۔اردو ادب کے لئے آپکی محنت کے پیش نظرحکومت پاکستان کی طرف سےآپکوستارہ امتیازاور پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازاگیا۔آپ ۷ ستمبر ۲۰۰۴ کو ۷۹ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

مشتاق احمدیوسفی:

اردوادب کے چاہنے والوں اوربہترین مصنفین کا ذکر کیا جائے تو مشتاق احمد یوسفی کا نام لازماّذہن و زبان پرآتا ہے۔ہنسی مذاق اور طنز گفتگو کا اہم جزوہوتے ہیں،اور تحریروں میں اسکی مددسےتلخ سے تلخ بات بھی اس طرح کردی جاتی ہے کہ کسی کوناگوارناگزرے،مشتاق احمد یوسفی اس فن کے ماہر تھے۔آپ ۴ ستمبر ۱۹۲۳ کو جےپورکےایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ نےایل ایل بی میں ماسٹرز کیا اورقیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکےپاکستان آگئے۔یہاں آپ نے بینکنگ کو بطور پیشہ اپنایا اورایک ممتاز بینکر بن گئے،بینکنگ میں نمایاں خدمات کے لئے انہیں قائد اعظم میموریل میڈل سے نوازا گیا۔۱۹۶۱ میں اپنی پہلی کتاب’چراغ تلے‘کی اشاعت کے ساتھ ادبی دنیا میں قدم رکھا۔مشتاق احمد یوسفی کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں،جن کے نام چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آب غم اور شام شعریاراں ہیں۔مزاح نگاری کے ساتھ نثرنگاری میں بھی آپ کا کوئی جواب نہیں تھا۔اپنی بے مثال صلاحیتوں اور اردو ادب کی خدمات کرنےکے نتیجے میں آپ کو۱۹۹۹ میں ستارہ امتیاز اور ۲۰۰۲ میں ہلال امتیاز کے اعزازسے نوازا گیا، جو حکومت پاکستان کی جانب سے دیا گیا سب سے بڑا ادبی اعزاز ہے۔اسکےعلاوہ بھی آپ بہت سے ایوارڈز اپنے نام کرواچکے ہیں۔

بانوقدسیہ:

بانو قدسیہ ایک مشہورومعروف پاکستانی مصنفہ،ڈرامہ نگاراوردانشورتھیں۔ آپ۲۸ نومبر ۱۹۲۸ کوفیروزپور میں پیداہوئیں۔کم عمر سےہی آپ ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے اسکول کےایونٹ کیلئےڈرامےلکھتی تھیں۔ بانوقدسیہ کو اردوسے بہت لگاوتھا،انکے نزدیک یہ وہ واحد زبان ہے جس سے وہ لوگوں کے ذہنوں تک پہنچ سکتی تھیں۔ اسی لئے ۱۹۵۱ میں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور میں معروف مصنف اشفاق احمدآپ کے ہم جماعت تھے۔اس وقت تک اشفاق احمدادب کی دنیا میں اپنی شناخت بناچکے تھے۔ جب انہوں نے بانوقدسیہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھا تو باقاعدگی سے لکھنا شروع کرنے کی ترغیب دی،اورمشترقہ صلاحیتوں اورزوق کی وجہ سے دونوں میں آشنائی ہوگئی اور۱۹۵۶میں ان دونوں نے شادی کرلی۔شادی کے بعد بھی بانو قدسیہ نے اردوادب کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔آپ کو اصل شہرت اور ادبی حیثیت۱۹۸۱ میں شائع ہونے والےناول ‘راجہ گدھ’ سے ملی۔آپ کی دوسری مشہور کتابوں میں ایک دن،پرواہ اور شہر بےمثال سمیت بہت سے نام شامل ہیں۔اسکے علاوہ آپ مختلف پاکستانی ڈرامے بھی لکھ  چکی ہیں جن میں انا،دوسراقدم اور پیا نام کا دیا سمیت بہت سے نام شامل ہیں۔اپنی خداد صلاحیتوں کی وجہ سے آپ مختلف اعزازات اورانعامات بھی اپنے نام کر چکی ہیں ۔پاکستانی حکومت کی طرف سے آپ کواردوادب میں خدمات کے لئے ستارہ امتیازاورہلال امتیاز سے نوازاگیا ہے۔۲۰۱۲ میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز نے قدسیہ کو کمال فن کا ایوارڈ دیاجوکہ ایک لائف ٹایم اچیومنٹ ایوارڈہےاوراسکے علاوہ بھی بانو قدسیہ کو مختلف ایوارڈز سے نوازاجا چکا ہے

عمیرااحمد:

عمیرا احمد اس دور کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اور اردوکی مقبول مصنفہ ہیں۔آپ ۱۰ دسمبر ۱۹۷۶ کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔آپ نے سیالکوٹ کے ہی کالج سے انگریزی میں ماسٹرزکیا،لیکن اردو سے بہت لگائوتھااوراپنی صلاحیتوں کی بنا پراردوادب کے میدان میں اپنانام بنایا۔عمیرااحمد نے کم عمری میں ہی لکھنا شروع کردیا تھا۔آپکی کہانیاں اکثر ماہانہ اردوڈائجسٹ میں شائع ہوتی تھیں۔ جلد ہی آپ نے کتابوں کی اشاعت بھی شروع کردی۔آپ نے اپنے پہلے ہی ناول سے شہرت حاصل کرلی تھی جس کا نام’زندگی گلزار ہے‘تھا۔اس ناول پر ایک ڈرامہ بھی بنا جس نے پڑوسی ملک انڈیا تک میں بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔ویسےتو آپ کی ہر تصنیف ہی منفرد مقام کی حامل ہے لیکن۲۰۰۴ میں شائع ہونے والے ناول ’پیرکامل‘نے آپکو بہترین مصنف کی صف میں جگہ دلوائی اور آپکی شہرت میں چار چاند لگا دیئے۔آپ کی تصانیف پر مختلف ڈرامے بھی بنے ہیں جس نے عوام میں بہت مقبولیت حاصل کی۔آپ کے تحریر کردہ ڈراموں میں زندگی گلزار ہے، میری زات زرہ بے نشاں،مات،کنکر،دام اور میرۃالعروس سمیت سپرہٹ ڈرامےشامل ہیں۔آپ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے تقریبا پندرہ مختلف ایوارڈز اپنے نام کرچکی ہیں۔اردوادب کے میدان میں آپ کا سفر بہت کامیابی سے جاری ہے جس کی مثال گزشتہ دنوں نشر ہونے والا ہٹ ڈرامہ سیریل الف اور آپ کی کتاب آب حیات ہے،جس کو مداحوں کی طرف بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔