دل سے دل تک: تاریخ کے فیض آباد پر

صدر راولپنڈی سے مری روڈ تک پہنچنا ایک شاندار کارنامہ تھا اور اس کارنامے پر میں خود کو دل ہی دل میں داد دے رہا تھا۔ دوپہر ایک بجے ٹریفک اور گرمی بھگت کر میں کسی نہ کسی طرح ٹریفک کے بے شمار اشاروں اور چوراہوں سے اپنی گاڑی گزار کر مری روڈ کے دہانے تک پہنچ گیا تھا۔

انگریزوں کے دور کا وہ سرخ پل اب میرے سامنے تھا، جس سے ٹرین دھڑدھڑاتی گزرتی ہے اور جس کے نیچے صدر آنے جانے والی ٹریفک رواں رہتی ہے۔ بہت معذرت رواں کا لفظ روانی میں لکھ گیا۔ مجھے یاد نہیں کہ پنڈی کے اس چوک پر میں نے ٹریفک کبھی روں دیکھی ہو۔ مجھے تو لگتا ہے کہ پرائیویٹ گاڑیاں، ٹیکسیاں، ٹرک، ویگنیں، سب یہاں بہ رضا و رغبت پھنسنے کے لیے آتی ہیں، کیوں کہ یہاں سے نکل کر انہیں جو طمانیت اور آسودگی ملتی ہے، وہ کسی اور صورت کسی اور حال میں ہرگز نہیں مل سکتی۔ بچپن میں ریل کے اس پل کو جس حالت میں دیکھا تھا، اس میں زمانے کے تغیر نے کوئی تبدیلی نہیں کی اور نہ سڑک کے ان گڑھوں میں کبھی کوئی کمی واقع ہوئی ہے جو میرے حافظے کی حد تک تیس چالیس سالہ عمر رکھتے ہیں۔ اس چوک کی بے نیاز بدنظمی دیکھ کر لاہور کا دو موریہ پل یاد آجاتا ہے۔

لیاقت باغ کے موڑ پر میرے پہنچتے پہنچتے ایک اہم اور ناگزیر فیصلے کا وقت آگیا تھا۔ کیا مری روڈ پر سفر جاری رکھا جائے، یا روولپنڈی کے مشہور پلاؤ کباب والے کی طرف گاڑی موڑ لی جائ اور کھانا وہاں تناول فرما کر دیرینہ روایت کی پاسداری کی جائے۔ تیس سال سے پنڈی کے ہر سفر میں اس پلاؤ کباب سے استفادہ کرنا فریضے کی طرح ہوچکا تھا۔ بصورتِ دیگر لاہوری معدہ برا مانتا تھا۔ یہ سلسلہ تب سے جاری تھا، جب پلاؤ کباب کی پلیٹ بائیس روپے کی تھی۔ اتنی مقدس، مضبوط اور دیرینہ روایت کو دن کے ڈیڑھ بجے توڑنا آسان نہیں، خصوصاً جب بھوک بھی چمک چکی ہو۔

لیکن فیصلہ میں نے نہیں، بلکہ گاڑیوں کے اژدہام نے کیا۔ کچھ عجلت پسند ڈرائیوروں کو معدے کی معصوم خواہشات سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی، سو میری گاڑی کے پیچھے غضب ناک ہارنوں کی مسلسل آوازوں نے ایک لمحے میں طے کردیا کہ سفر مری روڈ پر ہی جاری رکھا جائے۔ چلو خیر ہے، بلیو ایریا اسلام آباد میں بھی اس کی ایک شاخ ہے، وہاں چلے چلیں گے۔ یہ جملہ کسی حد تک دل کے لیے تسلی بخش ضرور تھا، لیکن دماغ بالکل مطمئن نظر نہیں آتا تھا۔ صدر سے گاڑیاں بمپر سے بمپر ملا کر چل رہی تھیں اور ہر کچھ دیر کے بعد کچھ ڈرائیور جھگڑتے نظر آتے تھے۔ کسی کسی چوک پر کوئی خدا کا بندہ اپنی مصروفیات چھوڑ کر گاڑیوں کا راستہ بناتا بھی نظر آتا اور بھولا بھٹکا کوئی ٹریفک سپاہی بھی دکھائی دے جاتا تھا۔ اتنی دیر تک ساتھ چلتے چلتے ہمسایہ گاڑیوں سے بھی کچھ کچھ واقفیت ہوچلی تھی۔ سیاہ کرولا گاڑی کے مالک ایک ادھیڑ عمر کے صاحب تھے، جو سخت تناؤ کا شکار نظر آرہے تھے اور ہارن بجا بجا کر دوسروں تک بھی اپنی پریشانی منتقل کرنا چاہتے تھے۔ با آوازِ بلند گانے سفید پک اپ سے سنائی دے رہے تھے۔ اس کا ڈرائیور اسے تجارتی مقاصد کے لیے چلاتا تھا اور پک اپ کی مرمت اس کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ گرے ہونڈا سٹی میں ایک بردبار خاتون شاید تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں اور اتنے ہجوم میں گاڑی چلانے کی عاید نہیں تھیں۔ سب سے زیادہ مشکل میں نیلی پراڈو والے صاحب تھے، جن کی گاڑی تنگ جگہ میں اپنا راستہ بنانے سے معذور تھی۔ وہ ہارن بجانے کے ساتھ ساتھ ہاتھ لہرا لہرا کر بھی دیگر گاڑیوں کو کچھ ناقابلِ فہم ہدایات جاری کر تہے تھے۔

کمیٹی چوک معمول کے مطابق خلقت سے کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہاں انڈر پاس نے جگہ کی تنگی کا احساس بڑھا کر ٹریفک کی تنگی کم کردی ہے۔ میٹرو بس کے فضائل اپنی جگہ درست اور اس روٹ پر میٹرو کے لیے فلائی اوور بنانے کی دشواریاں اپنی جگہ بجا، مگر سچ یہی ہے کہ اس تعمیر نے سہولت دے کر پنڈی کی مری روڈ سے رہی سہی خوبصورتی چھین لی ہے۔ پنڈی والوں سے اس بیان کی معذرت، مگر مجھے ہمیشہ یہی لگا کہ راولپنڈی جنا خوبصورت شہر ہونا چاہیے تھا، اتنا کبھی نہیں بنا۔ پوٹھو ہار کا یہ بڑا شہر ہمیشہ ایک میدانی علاقے جیسا نظر آیا۔ اسلام آباد کی تعمیر سے قبل یہ مری سے پہلے واحد شہر تھا، لیکن راولپنڈی سے کوئی کھلا منظر کبھی نظر آیا ہی نہیں۔ یہ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ راولپنڈی سر سبز پہاڑیوں، ہرے بھرے ٹیلوں اور اوبڑ کھابڑ گھاٹیوں میں کھلے جنگلوں کی ہمسائیگی بھی رکھتا ہے۔ کم سے کم میرے مشاہدے کی حد تک اطراف کی خوبصورتی کو شہر میں داخلے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ یہ دلدار شہر راولپنڈی ہر اس شناخت سے مزین تھا، جو کسی شہر کی شناخت ہوا کرتی ہے۔ زبان، ادب، ثقافت، روایات، رہن سہن، اس شہر میں کیا نہیں تھا۔ راولپنڈی کی اپنی تہذیب اور اپنی روایات ہیں۔ گوناگوں خصوصیات کے مالک مکین، کھلتے ہوئے رنگ کے خوش اخلاق لوگ، جن کے پوٹھوہاری لہجے میں ہندکو پہاڑی اور ہزارے کے الفاظ ایک خاص ذائقہ بناتے ہیں۔ دارالحکومت کے قرب اور روزگار کے مواقع میسر آنے کے باعث کہوٹہ، ایبٹ آباد، گلیات وغیرہ کے کافی لوگ یہاں آباد ہوچکے ہیں اور اپنا رہن سہن پنڈی کی رگوں مٰں شامل کرچکے ہیں۔ یہ کبھی ای پرسکون شہر تھا، آہستہ آہستہ یہہ سکون بھی اس ترقی کی نذر ہوا، جو زندگیوں میں سکون لانے کے لیے کی گئی تھی۔ راجوں اور عباسیوں کی اس بستی میں اندرون شہر میں ترقی اور تبدیلی کے کام نہ ہونے کے برابر ہیں، حالانکہ دونوں قبیلے کے بہت سے افراد اہم عہدوں پر رہنے کے باعث بہت ترقی دے سکتے تھے۔ دارالحکومت کے سرکاری دفاتر کا قرب اس پر مستزاد، لیکن پنڈی کی ترقی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی۔ حتمی نتیجہ یہ کہ ترقی بہت کم، سیاست بہت اور بھینٹ بہت ہی زیادہ۔

اسٹیڈیم اور سیٹلائٹ ٹاؤن موڑ تک پہنچنے تک چیختے چنگھارٹے ہارن کچھ کم ہوچکے تھے۔ قدری گشادگی کے احاس نے سانس کھل کر لینے کا موقع دیا۔ کرولا والے صاحب کے کھنچے ہوئے اعصاب بھجی کچھ متوازن ہونے لگے تھے اور پک اپ کا ڈرائیور بھی قریبی ڈرائیوروں سے مکالمات ختم کرچکا تھا۔ بردبار خاتون نے پانی کی بوتل نکال لی تھی اور پراڈو والے صاحب کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ فیض آباد قریب تھا، جہاں سے مسافروں کو اسلام آباد میں داخل ہونا تھا۔ گاڑیوں کا ہجوم اگرچہ باقی تھی، لیکن پہلے کی نسبت کم۔ گاڑیوں ہموار سانس کی طرح چلنا شروع ہوگئی تھیں۔

فیض آباد آگیا۔ جیسے دو غیبی ہاتھوں نے یک لخت دونوں طرف کی دکانوں، عمارتوں اور پلازوں کی دیواریں سمیٹ کر پیچھے دھکیل دیا۔ میٹرو بس کا سانپ جیسا لہراتا پل کسی ایک طرف نکل گیا۔ ٹھیلے والے، پھل والے اچانک غائب ہوگئے۔ ذرا سی چڑھائی چڑھے اور ایک پربہار منطر نے مسکرا کر مسافروں کا استقبال کیا۔ سرسبز پہاڑیوں کے سلسلے، شاداب ٹیلے اور اونچی اونچی سطح مرتفع کی خوبصورتی تھکن اتار دینے والی تھی۔ قدرتی خوبصورتی انسانی ہاتھوں کی تراش خراش سے خوببصورت تر ہوگئی تھی۔ قریب قریب چلنے والی گاڑیاں باعزت فاصلے پر چلے گئی تھیں۔ پک اپ ڈرائیور، برد بار خاتون اور کرولا کے مالک، سب کے چہروں کا تناؤ ختم ہوچکا تھا۔ مسکراہت سب کے ہونٹوں پر تھی۔ لہراتی سڑکوں کے نشیب و فراز پر گاڑی دوڑانے کو دل چاہتا تھا۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ محض دو فرلانگ پیچھے فیض آباد کی دوسری طرف منظر بالکل مختلف ہے۔ یہ سب محض دو فرلانگ پیچھے تھا، لیکن اصل بات یہ کہ دو فرلانگ پیچھے تھا، آگے نہیں۔

کیا یہ سفر علامت تھا؟ کیا یہ لوگ، یہ راستہ، یہ گاڑیاں سب علامتیں ہیں؟ کیا ہم پاکستانی کبھی تاریخ کے اس فیض آباد پر پہنچ سکیں گے جس سے آگے منظر خوش نما ہوں، راستہ ہموار اور کشادہ ہو، کیا ہم پچھلے سفر کی بدنظمی اور تکلیفیں بھلا کر آگے مسکراہٹوں بھرا سفر جاری رکھ سکیں گے، کون جانے۔ طے کیا جاچکا سفر تو محض ماضی ہے، اصل سفر تو وہ ہے جو ابھی کیا جانا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔