انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی آج 36 ویں برسی!
کراچی: عہد ساز اور دُنیا بھر میں وطن عزیز کی پہچان بننے والے اردو کے معروف شاعر فیض احمد فیض کو آج دنیا سے رخصت ہوئے 36 برس ہوگئے، آج اُن کی برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔
انقلابی شاعری کی تاریخ فیض کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔ انہوں نے اپنی انقلابی فکر اورعاشقانہ لہجے کو ملا کرایک ایسا طرز اپنایا جس سے اردو شاعری میں نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی۔ ان کے سیاسی خیالات و افکارآفاقی ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری آج کی شاعری نظر آتی ہے۔
فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انہوں نے تدریسی مراحل اپنے آبائی شہر اور لاہور میں مکمل کیے، اپنے خیالات کی بنیاد پر 1936 میں ادبا کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے اور اسے بام عروج پر پہنچایا۔ درس و تدریس چھوڑ کردوسری جنگ عظیم میں انہوں نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی لیکن بعد میں ایک بار پھرعلم کی روشنی پھیلانے لگے جوزندگی کے آخری روز تک جاری رہی۔
فیض کی شاعری کے انگریزی، جرمن، روسی، فرنچ سمیت مختلف زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے، ان کے مجموعہ کلام میں ’’نسخہ ہائے وفا‘‘، ’’نقش فریادی‘‘، ’’نقش وفا‘‘، ’’دست صبا‘‘، ’’دست تہہ سنگ‘‘، ’’سر وادی سینا‘‘، ’’زنداں نامہ‘‘ اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ فیض واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی شاعری مجازی مسائل پر ہی محیط نہیں بلکہ انہوں نے حقیقی مسائل کو بھی موضوع بنایا۔
فیض کی فلمی انڈسٹری کے لیے خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ان کا کلام شہنشاہ غزل مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، اقبال بانو، آشا بھوسلے و دیگر گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا، خاص طور پر اقبال بانو کی آواز میں اُن کا گایا گیا کلام امر ہوگیا۔ فیض نے درجنوں فلموں کے لیے غزلیں، گیت اورمکالمے بھی لکھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ حق گوئی کسی ایک کے لیے نہیں بلکہ ہر خطے اور زمانے کے لیے ہوتی ہے۔ انقلابی شاعر فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔