تعلیم اور تعلیمی ادارے ؛ منفرد تشریح مختلف ترتیب

ثناء خان ندیم

علم اور عقل دو ہتھیار ، جو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں فرمایا : ” پس اگر تم نہیں جانتے ، تو اہل علم سے دریافت کرو”. علم اور اہل علم کا درجہ نا صرف اسلام میں بلکہ دنیا کے ہر مزہب میں اونچا ہے ۔ علم کو اسلام میں مومن کی گمشدہ میراث کہا گیا ہے ۔ تعلیم و تربیت کا سلسلہ ہمارے معاشرے میں بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی پروان چڑھتا ہے۔ گھر اور خاندان تربیت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب کہ تعلیمی ادارے تعلیم دینے میں مثبت اقدام کرنے کے پابند ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ سب جیسا باہر سے دکھتا ہے ویسا ہی اندر کا حال بھی ہے ۔ اتنے بڑے اور مہنگے تعلیمی ادارے ، بچوں پر اضافی کتابوں کا بوجھ ، اساتزہ کی بھرتیاں۔ والدین کو سب اچھا ہے کا راگ الاپ کر اسکول و کالج انتظامیہ ہمیشہ مطمئن کر ہی دیتی ہے ۔ پر موجودہ حالات کے پیش نظر ملک بھر میں جس طرح ایویشن اتھارٹی پر جعلی ڈگریوں والے پائلٹس بھرتی کرنے کا الزام ثابت ہو چکا ہے ، ہماری حکومت کے اداروں کو ذرا غور ان تعلیمی اداروں میں بھرتی اساتزہ اور باقی ایڈمنسٹریشن کی ڈگریوں اور تجربوں پر بھی کرنا چاہئیے۔

ایک ذمہ دار پاکستانی شہری اور سائیکالوجسٹ ہونے کے ناطے میں نے بھی ایک اسکول کی تعلیمی حالت اور معیار پر اندرونی و بیرونی ریسرچ کے ذریعے اپنا قیمتی وقت لگایا ۔ کراچی میں واقع ایک نجی اسکول، جس میں کیمبرج اور میٹرک سسٹم کی تعلیم کے نام پر بچوں اور والدین کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے۔ اس اسکول کی خاصیت : یہاں وہ بچے جو میٹرک سسٹم میں پڑھتے ہیں ان کے ساتھ اساتذہ اور ایڈمنسٹریٹریشن کا رویہ سوتیلی ماں جیسا ہے۔ ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔ ان کو احساس کمتری اور پستی کا سامنا بار بار کیا جاتا ہے۔ ان بچوں کو یہ بول کو باقاعدہ ٹوکا جاتا ہے کہ یہ حق صرف کیمبرج سسٹم میں پڑھنے والے بچوں کا ہے۔ آپ اپنا تدریسی سسٹم بدل لیجیئے تو آپ بھی حقدار بن جائیں گے۔ اس کی مثال بالکل ویسے ہی ہے جیسے ایک ہی گھر میں ایک ہی ماں باپ کے بچوں میں سے ایک کو زیادہ اہمیت دینا باقیوں کے مقابلے میں۔

اسکول کے کیمبرج سسٹم کی زبوں حالی کا بھی معائنہ کیا جائے۔ کیمبرج سسٹم نام سے لگتا ہے یہاں پڑھانے والے اساتذہ اہل اور حلیم ہوں گے۔ مگر اس کی الگ کہانی سامنے آئی۔ اساتذہ کی خود کی تعلیم معیاری ہی نہیں، اوپر سے جن مضامین کا پڑھانا ان کو سونپا گیا وہ مضامین خود انہوں نے کبھی پڑھے ہی نہیں۔ لاحولا ولا قوہ۔ بچے سوال کچھ پوچھیں، اساتذہ جواب کچھ اور دے کر اگلے دن پر ٹال دیتے ہیں اور وہ اگلا دن کبھی آتا ہی نہیں۔ کچھ والدین نے اسکول کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے بچوں کو پیش آنے والے مسائل سے آگاہ کرنا چاہا تو کیمبرج سسٹم کی کم پڑھی لکھی اور زیادہ سر چڑھی کوآرڈینیٹر نے بات کرنے سے اور اساتذہ کی غلطیوں کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ مجھے بذات خود والدین نے یہ سب شکایات آ کر پہنچائیں ۔

اسکول کی پرنسپل سے جب والدین نے بات کر کے مسئلہ حل کرانے کی گزارش کی تو وہاں سے جواب یہ ملا کہ آپ اپنے بچے کو نکال کر کسی اور اسکول میں ڈال لیجئے۔ ہم اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ اپنے کیمبرج سسٹم کی بغیر سند شدہ اساتذہ کو نا ہی بلا کر سدھار پیدا کیا جاتا ہے نا ہی اپنی غلطی پہ پشیمان ہو کر معافی مانگی جاتی ہے۔ اب یہ مافیا کون دیکھے گا ، اس پر تو پرائیویٹ اسکول ایسوسیشن کے ایڈمنسٹریٹریشن سے بات کر کے حل طلب جواب مانگنا چاہئیے۔ ورنہ وزیر تعلیم سندھ کو اس پر ایکشن لینا چاہئیے۔ پرائیویٹ اسکول میں پنپنے والا یہ مافیا بچوں کا مستقبل تو خراب کر ہی رہے ہیں ان کو گھٹیا معیار تعلیم مہیا کرتے ہوئے، اوپر سے ہماری آنے والی نسلوں کو دو دھروں میں بانٹ کر انتشار پیدا کرنے کی کاوش بھی کر رہے ہیں۔ میٹرک سسٹم اور کیمبرج سسٹم۔ جب کہ اساتزہ دونوں کے ایک۔ دونوں اطراف کے اساتذہ کا تعلیمی معیار ناقص۔ اپنے منتخب کردہ مضامین پر کوئی عبور نہیں۔ ایڈمنسٹریٹریشن بد حواس اور تعاون نا کرنے والی۔ کیا یوں ہی چلتا رہے گا پاکستان کا تعلیمی نظام؟

مجھے ڈر ہے کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کہیں دنیا ہمارے ملک کے پڑھے ہوئے نوجوان کی ڈگری کو مسترد ہی نا کر دے، بالکل ویسے جیسے ہمارے ملک کے پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کی وجہ سے دنیا نے پاکستان ائیر لائینز کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

وزیراعظم کے ایک نصابی نظام کو ملک میں بلا تاخیر شروع کر دینا چاہیئے۔ یہی واحد حل ہے جو ملک کو ایک سمت پر ڈال سکتی ہے ۔ والدین پر سے فیسوں کا اضافی بوجھ اور بچوں پر سے اضافی احساس کمتری ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ورنہ سندھ میں تو تعلیم ایک ghost substance کے طور پر رائج ہے ہی ، کہیں یہ ایک مرحلہ آگے نا پہنچ جائے۔ جہاں سرکاری اسکولوں میں گدھے بندھے نظر آتے ہیں۔ اور پرائیویٹ اسکول انتظامیہ محض فیسوں پر میٹنگز اور فیصلے کرتے نظر آتی ہے، آج تک اساتذہ کا آڈٹ کرتا کوئی نظر نہیں آیا۔ ہماری کاوش ایسے اسکولوں اور اساتذہ سمیت انتظامیہ کو بے نقاب کرنا ہے۔ ایک بہتر اور پڑھا لکھا پاکستان ہمارا آج اور ہمارا کل دنیا میں روشن کرے گا جس کے لئے ایمانداری سے کام آج اور ابھی شروع کرنا ناگزیر ہے ۔

نوٹ: یہ بلاگر کی اپنی ذاتی رائے ہے. وائس آف سندھ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔