عبدالستار ایدھی، انسانیت کے علمبردار
حاجی صاب، میرا کام انسانیت کی کھِدمت کرنا ہے۔ جس کو جو من میں آئے کہے، میں فقیر آدمی ہوں، کیا پھرق پڑتا ہے۔“ میں نے ہو بہو وہ ہی الفاظ کاپی کیئے ہیں جو ایدھی صاحب نے مجھے اپنی آخری ملاقات میں کہے تھے۔ یہ ملاقات ایدھی سینٹر میٹھا در میں اس دن ہوئی تھی جس دن بھارتی ہائی کمشنر اسلام آباد سے اپنی اہلیہ کے ساتھ سخت سیکیورٹی میں میٹھا در پہنچے تھے۔
بھارتی ہائی کمشنر کئی برسوں سے ایدھی سینٹر میں قیام پذیر گونگی اور بہری ہندو لڑکی گیتا کو لینے پہنچے تھے۔ جب بھارتی وزیر خارجہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ گیتا کے والدین کا پتہ چل گیا ہے اس لئے گیتا کو بھارت بھیجا جائے۔ یہ ہندو لڑکی سمجھوتہ ایکسپریس سے واہگہ بارڈر پہنچی تھی لیکن اپنے والدین سے بچھڑ گئی تھی، بعد ازاں ایدھی فاؤنڈیشن کے سپرد کی گئی تھی۔ ایدھی صاحب نے گیتا کو لاہور سے بلوا کر اپنی نگرانی میں ایدھی سینٹر میں رکھا۔ شروعاتی دنوں میں تو ایدھی صاحب اسے سوامی نارائن مندر بھی لے جاتے تھے لیکن بعد میں ایدھی صاحب نے ایدھی سینٹر میں ہی ایک کمرے کے اندر گیتا کے لئے مندر بھی بنا دیا تھا۔ گیتا چونکہ بول نہیں پا رہی تھی اس لئے یہ نام بھی بلقیس ایدھی نے رکھا تھا۔ گیتا کے کردار کو ہی مد نظر رکھ کر بعد میں سلمان خان کی مشہور فلم بنی تھی۔
عبدالستار ایدھی سے میری واقفیت اور صحافت میں رپورٹنگ کی عمر لگ بھگ ایک جتنی ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہی تھا کہ مجھے اچانک حکم ملا کہ پرائم منسٹر بے نظیر بھٹو آج شام کلفٹن میں ایدھی چائلڈ ہوم کا دورہ کرنے جا رہی ہیں آپ کو وہاں جانا ہے۔ میرا پہلا سوال تو یہ تھا کہ میرے پاس تو خصوصی سیکیورٹی پاس ہی نہیں ہے سو وزیر اعظم کے پروگرام میں کیسے جا سکتا ہوں۔ بتایا گیا کہ یہ اچانک دورہ ہے جس کے لئے چند لوگوں کو بلایا گیا ہے۔ سندھی زبان کے سب سے بڑے اخبار کی وجہ سے میں وزیر اعظم کی آمد سے قبل ہی ایدھی ہوم پہنچ گیا تھا۔ یہ 1994 کی بات ہے جب کراچی میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب تھی۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اچانک بلاول ہاؤس سے نکل کر درویش صفت عبدالستار ایدھی سے ملنے کے لئے چائلڈ ہوم پہنچیں۔ بچوں سے ملاقات کے دوارن وزیر اعظم ان سے بے ساختہ گفتگو کرنے لگیں۔ بچوں نے وزیر اعظم کو گلدستہ بھی پیش کیا تھا۔
بچوں سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے عبدالستار ایدھی سے مخاطب ہوکر کہا، "ایدھی صاحب، ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔“ ابھی ایدھی صاحب جواب سوچ ہی رہے تھے کہ پھر سے وزیر اعظم کہنے لگیں، "ہم چاہتے ہیں کہ ہم کراچی شہر کا انتظام آپ کے حوالے کریں۔ آپ کراچی میونسپل کارپوریشن کا ایڈمنسٹریٹر بن جائیں اور کراچی کے حالات بہتر کرنے میں ہماری مدد کریں۔” یہ وہ زمانہ تھا جب کچھ ہی عرصہ قبل ایدھی صاحب کو قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں، جس کی وجہ سے ایدھی صاحب لندن چلے گئے تھے۔ وہاں جاکر ایدھی صاحب نے کہا تھا کہ کراچی میں ان کو دہشت گردوں سے تو خطرہ ہے لیکن جنرل حمید گل ایک سیاسی رہنما کو میرے پاس لے کر آئے تھے کہ مل کر بے نظیر حکومت کا خاتمہ کرتے ہیں۔ اس موضوع کی تمام تر تفصیلات بعد ازاں ایدھی صاحب نے اپنی کتاب میں بھی لکھی ہیں۔ یہ خبریں عالمی نشریاتی اداروں پر نشر ہو رہی تھیں۔ شاید یہ ہی وجہ ہو کہ بے نظیر بھٹو کے ذہن میں ایدھی صاحب کو ساتھ لے کر چلنے کا خیال آیا ہو۔ بے نظیر بھٹو کی پیشکش سن کر ایدھی صاحب مسکرائے، کہنے لگے، "بی بی، میں فقیر آدمی ہوں میرا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں۔“ پھر بے نظیر بھٹو نے کہا چلو ہم بلقیس کو ایڈمنسٹریٹر بناتے ہیں۔ بلقیس ایدھی نے قہقہہ لگاتے ہوئے دونوں ہاتھ انکار میں ہلائے۔ ایدھی صاحب کہنے لگے، "بی بی، میں آپ کو ایک قابل بندہ دیتا ہوں جو میرا ہیلی کاپٹر چلاتا ہے۔ پھر انہوں نے کیپٹن فہیم الزماں کا نام لیا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے سیکریٹری کو اشارہ کیا کہ نام نوٹ کرو۔ اس کے کچھ دنوں بعد فہیم الزمان کو ایڈمنسٹریٹر کراچی تعینات کردیا گیا تھا۔
عبدالستار ایدھی میرے ایک آئیڈیل دوست تھے۔ پچیس برسوں کے دوران ایک سو سے زائد ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ کبھی راہ چلتے ہوئے تو کبھی بھیک فنڈ مانگتے ہوئے۔ کبھی ایدھی سینٹر میں تو کبھی کسی اسپتال میں۔ کبھی لیاری آپریشن کے دوران غریب ریڑھی بانوں کی مدد کرتے ہوئے۔ وہ کبھی امن مارچ کرتے تھے تو کبھی کھانا تقسیم کرتے تھے۔ ایدھی صاحب سے جب بھی بات ہوتی تھی وہ کہتے تھے انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔ ہم سب پہلے انسان ہیں اس کے بعد کوئی مذہبی شناخت۔ جس آخری ملاقات کا حوالہ دیا، اس ملاقات میں ہھی میں نے ایدھی صاحب سے ان کے بیٹے رضوان ایدھی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اس دن فیصل ایدھی بہت مصروف تھے، انہیں بہت ساری فونز آ رہی تھیں۔ میڈیا کیمروں کے لئے جگہ کم پڑگئی تھی۔ چونکہ کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا تھا، ایدھی صاحب اکیلے ہی بینچ پر بیٹھے رہے۔ اس وجہ سے میں ساتھ جاکر بیٹھ گیا اور بغیر کیمرے کے گپ شپ کرنے لگا۔
ایدھی صاحب گجراتی تھے اور صوبہ سندھ میں بہت گھومے پھرے، اس لئے میں ہمیشہ ان سے سندھی زبان میں بات کرنے کی کوشش کرتا تھا اور وہ بول بھی لیتے تھے لیکن زیادہ دیر نہیں۔ ابھی چند سال پرانی بات ہے کہ اطلاع ملی کہ ایدھی صاحب اپنے کچھ رضاکاروں کے ہمراہ ایدھی سینٹر کھارا در سے نکل کر امن مارچ کر رہے ہیں۔ ایم اے جناح روڈ پر خالق دینا ہال کے پاس دیکھا کہ ایدھی صاحب ویل چیئر پر تھے۔ دس پندرہ افراد کا قافلہ قائد اعظم کے مزار کی جانب رواں دواں تھا۔ میں نے روک کر ایدھی صاحب کا انٹرویو کیا۔ میں نے کہا کہ آپ کے اس چھوٹے سے مارچ سے کیا فرق پڑے گا۔ کہنے لگے، "دیکھو حاجی صاحب، میرا کام ہے اپنا پھرز( فرض) پورا کروں “ چار برس قبل ایدھی صاحب کی غیر موجودگی میں میٹھا در سینٹر گیا تو بلقیس ایدھی اور فیصل ایدھی سے ملاقات ہوئی۔ ایدھی صاحب کی غیر موجودگی کا احساس تو ایدھی سینٹر میں ہی نہیں پورے پاکستان میں محسوس ہو رہا ہوگا لیکن ایدھی فائونڈیشن اب ایک ایسا ملک ادارہ ہے جو ملک بھر کے بے سہارا لوگوں کا مضبوط سہارا ہے۔
فیصل ایدھی جس نے دو سال قبل کوئٹہ میں عبدالستار ایدھی کے مجسمے کا افتتاح کیا ہے۔ اسحاق لہڑی نے یہ مجسمہ بنایا۔ پچھلے 7 سال میں ملک کے کونے کونے میں مجسمہ سازوں نے ایدھی صاحب کے مجسمے بنائے ہیں۔ فیصل ایدھی سے ہمیں آج بھی ایدھی صاحب کی خوشبو آتی ہے اور بلقیس ایدھی نے تو تاحیات تسلسل کو برقرار رکھا۔ اللہ غریق رحمت کرے۔ آمین۔ فیصل نے چند سال قبل بتایا تھا کہ ایدھی ایمبولینس سروس کو ہر سال تین سو نئی گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہم کسی بھی سرمایہ دار کے پاس بھیک مانگنے نہیں جاتے۔ عبدالستار ایدھی خود کہتے تھے۔“ میں گناہ گار انسان ہوں مجھ سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی ، لیکن وہ انسان کی صورت میں ایک انقلابی رول ماڈل تھے۔ ایک ایسا رول ماڈل جو پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی معاشرے میں تبدیل کرنے کی مکمل صلاحیت اور فن رکھتا تھا کیونکہ وہ ہر قسم کی اونچ نیچ سے بالا تر تھے۔ ان کی نہ کوئی ذات تھی نہ کوئی نسل۔ نہ کوئی فرقہ تھا نہ قوم۔ ان کی میراث فقط انسانیت تھی جو آج بھی پاکستان کے ہر شہر کے ایدھی سینٹر میں زندہ ہے۔