الف لیہ اور درسی کتب

 

اسلم ملک

کچھ عرصہ پہلے پنجاب کے  مختلف انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کئی کتابوں پر پابندی لگادی گئی۔

ایک کتاب پر پابندی یہ کہہ کر لگائی گئی کہ اس میں ایک اخلاق سوز کہانی ہے، جس میں بادشاہ روز ایک شادی کرتا ہے اور اگلی صبح دلہن کو قتل کرادیتا ہے۔ یقینا” یہ کہانی الف لیلہ کی ہوگی جو دراصل عربی زبان میں لکھی گئی تھی، پھر اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ ہوا اور اس کے بعد انگریزی اور بے شمار زبانوں میں۔ یہ داستان اردو میں انگریزی کے راستے آئی۔ ہماری اکثر مشہور کہانیاں اللہ دین کا چراغ، علی بابا چالیس چور وغیرہ اسی کتاب سے ہیں۔

الف لیلہ یا الف لیلہ‎ آٹھویں صدی عیسوی میں عرب ادبا نے تحریر کی اور بعد ازاں ایرانی، مصری اور ترک قصہ گوؤں نے اس میں اضافے کیے۔ کتاب کا پورا نام اَلف لیلۃ و لیلۃ یعنی ایک ہزار ایک رات ہے۔ کہتے ہیں کہ سمرقند کا ایک بادشاہ شہر یار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورت ذات سے بدظن ہو گیا۔ اُس نے یہ دستور بنا لیا کہ ہر روز ایک نئی شادی کرتا اور دلہن کو رات بھر رکھ کر صبح کو قتل کر دیتا۔ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو عورتوں کی تعداد کم پڑنے لگی۔ بادشاہ کے وزیر نے بھی اسے رائے دی کہ ایسا کب تک چلے گا۔ اب تو کوئی عورت شادی کرنے کو بھی راضی نہیں ہوتی۔ بادشاہ نے اسے کہا تم اس کا بندوبست کرو ورنہ تمہیں قتل کر دیا جائے گا۔

یہ بات وزیر کی بیٹی شہز زاد تک پہنچی تو آخر اس نے اپنی صنف کو اس عذاب سے نجات دلانے کا تہیہ کیا اور باپ کو بمشکل راضی کرکے بادشاہ سے شادی کرلی۔ بادشاہ شہریار قصوں کہانیوں کا بہت شوقین تھا۔ شہر زاد نے رات کے وقت بادشاہ کو ایک کہانی سنانا شروع کی۔ وق کہانی سناتی رہی، رات ختم ہو گئی مگر کہانی ختم نہ ہوئی۔ کہانی اتنی دلچسپ تھی کہ بادشاہ نے باقی حصہ سننے کی خاطر وزیر زادی کا قتل ملتوی کر دیا۔ دوسری رات اس نے وہ کہانی ختم کرکے ایک نئی کہانی شروع کر دی۔ جب کہانی کلائمیکس پر پہنچتی تو وہ اسے کل کے لیے ملتوی کر دیتی۔ اس طرح ایک ہزار ایک رات تک کہانی سناتی رہی۔ اس مدت میں اُس کے دو بچے ہو گئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔

الف لیلٰی کی اکثر کہانیاں بابل، فونیشیا، مصر اور یونان کی قدیم لوک داستانوں کو اپنا کر لکھی گئی ہیں اور انھیں حضرت سلیمان علیہ السلام، ایرانی سلاطین اور مسلمان خلفاء پر منطبق کیا گیا ہے۔ ان کا ماحول آٹھویں صدی عیسوی کا ہے۔ ایسی کہانیاں جن میں ان چیزوں کا ذکر ملتا ہے جو آٹھویں صدی میں دریافت و ایجاد نہیں ہوئی تھیں بلکہ یہ بہت بعد کے اضافے ہیں۔ محمد بن اسحاق نے "الفہرست” میں کہانیوں کی ایک کتاب ہزار افسانہ کا ذکر کیا ہے جو بغداد میں لکھی گئی تھی اور اس کی ایک کہانی بھی درج کی ہے جو الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کتاب کا نام "ہزار افسانہ” تھا۔ نیز اس میں ایک ہزار ایک داستانیں نہ تھیں۔ بعد میں مختلف مقامات پر اس میں اضافے ہوئے اور کہانیوں کی تعداد ایک ہزار ایک کرکے اس کا نام الف لیلۃ و لیلہ رکھا گیا۔

1704 میں یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب انتونی گلانڈ نے اس کا ترجمہ کیا۔ اسی سے دوسری زبانوں میں تراجم ہوئے۔ اردو میں یہ کتاب انگریزی سے ترجمہ ہوئی۔ الف لیلہ کا پہلا اردو ترجمہ رتن ناتھ سرشار نے کیا۔ پہلی جلد کا ترجمہ رتن ناتھ سرشار نے اور دوسری کا ترجمہ مولوی محمد اسماعیل نے کیا تھا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔